فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اس پر بعض صحابہ کا یہ خیال تھا کہ آپ مشقت کو کم کردیں کیونکہ جب مغفرت ہوچکی تو اب مشقت کی کیا ضرورت ہے، اسی بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اب تو حق تعالی نے فضل فرمایا کہ اگلے پچھلے ذنوب سب معاف کردئیے اب اس قدر مشقت نہ اٹھائیے اس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ أفَلاَ أکُوْنَ عَبْداً شَکُوْراً کہ کیا میں شکر گذرا بندہ نہ بنوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ مغفرت تامہ کا جو مطلب سمجھے ہو وہ صحیح نہیں (کہ عبادت میں کمی کردی جائے) بلکہ یہ معلوم ہو کر تو عبادت میں اور زیادتی ہونی چاہئیے، اور حق تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے اس عبادت شاقہ کا ایک مقتضی نہ سہی یعنی طلب مغفرت کیونکہ وہ حاصل ہوگئی لیکن دوسرا مقتضی تو موجود ہے یعنی شکر۔ اس حدیث سے ایک قاعدہ کلیہ معلوم ہوگیا، وہ یہ کہ اگر کوئی طاعت کسی مقصود کے واسطے کی جائے اور قبل طاعت وہ مقصود حاصل ہوجائے تو اس طاعت کو چھوڑا نہ جائے۔ پس فقہاء کے قول کی من وجہ یہ حدیث اصل ہوسکتی ہے کہ اگر نماز استسقاء سے قبل بارش ہوجائے تب بھی نماز پڑھ لیں ۔۱؎ میرا مقصود اس وقت صرف فقہاء کے اس قول کی اصل بیان کرنا ہے کہ انہوں نے استسقاء نماز کے باب میں بیان کیا ہے کہ نماز کا قصد کرلینے کے بعد اگر نماز سے پہلے بارش ہوجائے تب بھی مناسب ہے کہ نماز پڑھ لی جائے، وجہ یہ ہے کہ یہ شکر ہے نعمت کا ، کذا فی الدرر المختار آخر باب الاستسقاء وقال الشامی ویستزیدون من المطر۔ اور فقہاء کے اس قول کی من کل الوجوہ اصل اس کو اس لئے نہیں کہا کہ من کل الوجوہ کہنے پر کچھ سوالات ہوسکتے ہیں مثلاً ایک یہی کہ استدلال کلی کی صورت میں اس کا مقتضی یہ ہوگا کہ اگر استسقاء کی نماز پڑھ کر بھی بارش ہوجائے تو پھر نماز پڑھے اور پھر ------------------------------ ۱؎ وعظ شکر العطاء ملحقہ التبلیغ ۱۷؍ ۲۲۹-۱۸۷