فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
بات صحیح ہے جیسے نماز، روزہ، وضو، طہارت وغیرہ کہ سردی کے وقت یا تکلیف کی حالت میں وضو کا ثواب زیادہ ہے گرمی میں روزہ کا ثواب زیادہ ہے مگر جو اعمال خود مقصود نہیں بلکہ ذرائع مقصود ہیں ان میں بلا وجہ زیادہ مشقت برداشت کرنے سے ثواب زیادہ نہیں ہوتا، مثلاً وضو کا پانی پاس موجود ہے اس کو چھوڑ کر تین میل دور سے پانی لا کر وضو کرے تو یہ زیادتِ ثواب کا سبب نہیں آیت قرآن مَاجَعَلَ اﷲُ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ،اور حدیث اَلدِّیْنُ یُسْرٌ،جاننے کے بعد بھی جو شخص مشقت کو جزء دین سمجھے تو ان نصوص کا مقابلہ ہے نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ ذٰلِکَ۔۱؎ مقصود میں مشقت اٹھانا تو موجب اجر ہے لیکن جو ذریعہ مقصود ہو تو اس میں جو سہل صورت ہو اسی کو اختیار کرنا افضل ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی امر کی دو شقوں میں اختیار دیا جاتا تو جو شق زیادہ آسان ہوتی تھی آپ ان کو اختیار فرماتے تھے، اور فطرت سلیمہ کا بھی یہی تقاضہ ہے مثلاً کسی کو وضو کرنا ہے تو ایک صورت تو یہ ہے کہ یہیں حوض میں وضو کرلے اور دوسری صورت یہ ہے کہ دو کوس چل کر ’’جلال آباد‘‘ پہنچے اور وہاں سے وضو کرکے آئے چونکہ وضو خود مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود یعنی نماز کا ذریعہ ہے اس لئے اس میں زیادہ مشقت اٹھانا موجب زیادت اجر نہیں بلکہ جو سہل ہے اسی کو اختیار کرنا افضل ہے۔ برخلاف اس کے اگر نماز میں طویل قراء ت کرے مثلاً ایک رکعت میں تو سورہ بقرہ پڑھے اور دوسری میں آل عمران تو اس مشقت کی وجہ سے اس میں زیادہ اجر ہے بہ نسبت اس نماز کے جن میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھی گئی ہوں کیونکہ نماز مقاصد میں سے ہے مگر اس میں حدود ہیں مثلاً ساری رات نفلیں پڑھتا رہا اور اتنی دیر میں سویا کہ وقت پر آنکھ نہ کھلی اور صبح کی جماعت فوت ہوگئی تو اس کی بھی ممانعت ہے۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ مجالس حکیم الامت ص ۳۱۲ ۲؎ الافاضات الیومیہ ۹؍ ۱۸۷وص ۱۱۴