فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
کرنا چاہئے، یہ میں نے اس لئے کہہ دیا تاکہ اس نعمت کی ناقدری نہ کی جائے، خوب سمجھ لو کہ نعمت ہونا اور چیز ہے، طاعت ہونا اور بات ہے میں ترک اصلی سے طاعت وعبادت ہونے کی نفی کر رہا ہوں نعمت ہونے کی نفی نہیں کر رہا اور ترک اصلی نعمت کیوں نہ ہوتا جس میں گناہ کی طرف التفات ہی نہیں نہ فعلاً نہ ترکاً، میں تو ترقی کر کے یہ کہتاہوں کہ یہ بھی بڑی نعمت ہے کہ ارادۂ معصیت کے بعد گناہ کی قدرت سلب کرلی جائے کہ بندہ گناہ کا ارادہ کرتا ہے مگر کر نہیں سکتا، گو مجھے اس مسئلہ کی تحقیق نہیں کہ ارادہ کے بعد اگر گناہ پرقدرت اور قدرت کے بعد میں اس کا ارتکاب بھی ہوجائے تو اس کے گناہ میں اور ارادہ جازمہ مجردہ عن الفعل کے گناہ میں فرق ہے یامساوات، ظاہراً تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے مساوات نہیں ہے، لیکن اگر مساوات بھی ہو جب بھی سلب قدرت فعلِ نعمت ہے کیونکہ ارادہ جازمہ کے بعد ناکامی ہونے سے انسان کو ندامت سخت ہوتی ہے کہ میں نے خواہ مخواہ ہی گناہ کا قصد کیا، اس حالت میں وہ جلد ہی اپنے ارادہ سے تو بہ کرلیتا ہے بخلاف اس شخص کے جس کو ارادہ کے بعد کامیابی ہوجائے کہ وہ ارادے پر نادم نہیں ہوتا بلکہ اول اول تو اس کو خوشی ہوتی ہے کہ میں اپنے ارادہ میں کامیاب ہوگیا پھر کچھ عرصہ تک لذتِ گناہ کی مستی میں منہمک رہتا ہے اس کو توبہ کی توفیق بہت دیر میں ہوتی ہے اور بعض کو عمر بھر بھی نہیں ہوتی، اس لئے میرا یہ دعوی صحیح ہے کہ سلب قدرتِ گناہ بھی نعمت ہے، پھر عدم التفات کیوں نہ نعمت ہوگا۔ پس ترک اصلی میں جو ہم ہزاروں گناہوں سے بچے ہوئے ہیں نعمت تو ضرور ہے مگر قواعد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبادت نہیں ، اور یہ گفتگو بھی قانون کی تحقیق ہے باقی حق تعالی کا فضل وانعام ہے کہ وہ کسی کو ترک اصلی پر بھی ثواب دے دے کیونکہ فضل وانعام قانون کا پابند نہیں ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ حشر میں ایک شخص کو سیئات کے عوض میں گن