فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ماں نے چند بار پکارا مگر انہوں نے جواب نہ دیا، اس وقت شریعت کا حکم یہ تھا کہ وہ بول پڑتے اور نماز کا بعد میں اعادہ کرلیتے کیونکہ نماز فرض نہ تھی نفل تھی، اور ماں کو اطلاع نہ تھی کہ یہ نماز میں مشغول ہیں ، لمبا قصہ حدیثوں میں (مذکور )ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو نقل کرکے فرمایا: لو کان فقیہا لأجاب اُمَّہٗ یعنی اگر جریج فقیہ ہوتے تو اپنی ماں کو ضرور جواب دیتے، خاموش نہ رہتے۔(مسلم شریف) حضرت جریج کو یہ شبہ ہوا تھا کہ نماز حق اللہ ہے اور ماں کو جواب دینا حق العبد ہے اور حق اللہ حق العبد سے مقدم ہے، اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ مقدمہ تو صحیح ہے کہ حق اللہ حق العبد سے مقدم ہے مگر یہ مقدمہ غلط ہے کہ اس وقت ماں کو جواب دینا محض حق العبد ہی ہے، ان کو بوجہ عدم تفقہ کے یہ خبر نہ تھی کہ اس وقت نماز کا توڑنا اور ماں کو جواب دینا حق اللہ بھی ہے کیونکہ اس وقت اسی کا امر تھا اور جس وقت جس چیز کا امر ہو وہ حق اللہ بھی ہے، محض حق العبد نہیں ، گو ظاہر میں اس فعل کا تعلق بندہ سے ہو، ابھی کل پرسوں کا واقعہ ہے کہ میں صبح کی سنتیں پڑھ رہا تھا کہ میرے گھر سے آدمی دوڑتا ہوا یہ خبر لایا کہ گھر میں سے کوٹھے کے اوپر سے گرگئی ہیں ، میں نے خبر سنتے ہی فوراً نماز توڑدی (کیونکہ تفقہ کا مقتضی یہی تھا وجہ یہ ہے کہ) جب بیوی کوٹھے پرسے گری تو اس کی چوٹ کو شوہر ہی ہلکا کرسکتا ہے اور وہی دریافت کرسکتا ہے کہ چوٹ کہاں لگی ، کہاں نہیں لگی، خصوصاً ایسی حالت میں کہ گھر کے اندر ایک بچی اور بوڑھی کے سوا کوئی امداد کرنے والا بھی نہ تھا، اس لئے مجھ کو فوراً جانا ضروری تھا، اس لئے میں نے شرعاً نماز کا توڑ دینا اور فوراً جاکر ان کی خبر گیری کرنا ضروری سمجھا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے حضرات حسنین میں سے ایک صاحب زادہ مسجد میں آگئے، چھوٹے بچے تھے لڑکھڑاتے تھے حضور نے خطبہ توڑ کر ان کو دور ہی سے گود میں اٹھالیا، حالانکہ خطبہ بحکم صلوۃ ہے۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ ماعلیہ الصبرملحقہ فضائل صبر وشکر ص: ۱۷۰