فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
مداومت حقیقیہ تو یہ ہے کہ کسی فعل کو صورۃ بھی ہمیشہ کیا جائے اور مداومت حکمیہ یہ ہے کہ کسی فعل کو صورۃ تو کسی مصلحت کی وجہ سے کبھی چھوڑ دیا ہو لیکن ارادہ میں اس فعل پر دوام ہو، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ کو بھی بجائے فعل کے مؤثر سمجھنا چاہئے اور حضور کا ارادہ دوامِ تراویح کے متعلق خود اسی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نمازِ تراویح چند روز پڑھائی اور پھر چھوڑ دی، صحابہ نہایت ذوق شوق سے تراویح کے لیے مسجد میں حاضر ہوئے مگر آپ اپنے حجرۂ اعتکاف سے تشریف نہ لائے، صحابہ نے اس خیال سے کہ شاید آپ سورہے ہوں کھانسنا، کھنکارنا شروع کیا تا کہ آپ بیدار ہوجائیں ، اور ہمیں تراویح پڑھائیں ، مگر آپ تشریف نہ لائے، مجبوراً صحابہ واپس چلے گئے، صبح کو جب صحابہ خدمت شریف میں حاضر ہوئے تب آپ نے فرمایا کہ مجھ کو تمہارے رات کے آنے کی خبر ہے مگر میں قصداً نہیں نکلا، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ اجتماع پسندیدہ ہے، مجھ کو خوف ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز یعنی تراویح فرض نہ ہوجائے، اور تم دقت میں پڑجاؤ، اس وجہ سے پھر آپ نے تراویح جماعت سے نہیں پڑھی، لیکن اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو آپ ضرور جماعتِ تراویح کی مواظبت (پابندی) فرماتے، جیسا کہ یہ ارشاد بتلارہا ہے ، پس مواظبتِ حقیقیہ گو نہیں مگر مواظبت حکمیہ ثابت ہے اسی لیے حضرات صحابہ کرام نے بعد میں تراویح پر مواظبت کی اور اسی لیے تراویح سنت مؤکدہ ہے۔ (الغرض) آپ نے جماعت تراویح پر مداومت اس وجہ سے نہیں کی تاکہ یہ فرض نہ ہوجائے اور امت دقت میں نہ پڑ جائے، یہ غایت درجہ کی امت پر شفقت ہے، یہ امت کی مصلحت تھی، ترک دوام صوری میں ، چونکہ مداومت حکمیہ ارادیہ جو بمنزلہ فعل کے ہے حضور سے ثابت ہوچکی، تو یہ تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے کے لئے کافی بلکہ اکفی دلیل ہے۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ سنت ابراہیم ص۲۸