فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
امر حرام یعنی گستاخی بجناب باری تعالیٰ کا وہ بھی منہی عنہ اور قبیح ہوجائے گا اس سے ایک قاعدہ شرعیہ ثابت ہوا کہ مباح جب حرام کا سبب بن جائے وہ حرام ہوجاتا ہے۔ اور ہر چند کہ اوپر یا دوسری آیات میں جو مضامین اثباتِ توحید ورسالت وابطالِ شرک و کفر کے مذکور ہیں بعض اوقات ان پر بھی کفار جناب باری جل شانہ کی گستاخی اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے کلمات کہا کرتے تھے لیکن ان مضامین کا بیان کرنا ممنوع نہیں ہوا، وجہ فرق یہ ہے کہ ان مضامین کا ظاہر کرنا واجب اور مطلوب عند الشرع تھا، ایسے امر پر اگر کچھ مفاسد مرتب ہوجائیں تو اس امر کو ترک نہ کیا جائے گا، یہ دوسرا قاعدہ ثابت ہوا۔ اور دشنامِ بت (یعنی بتوں کو برا بھلا کہنا) امر مباح تھا واجب مطلوب عند الشرع نہ تھا، ایسے امر پر جب مفاسد مرتب ہوں گے اس کو ترک کرنا واجب ہوگا، یہی فرق ہے دونوں میں ، یہ دونوں فقہی قاعدے علم عظیم ہے، بے شمار فروع کا حکم اور فیصلہ اس سے معلوم ہوتا ہے۔ روح المعانی میں ابو المنصور سے یہی فرق (ایک سوال کے جواب میں جو ان سے پوچھا گیا تھا) نقل کیا ہے، اور ابن سیرین سے بھی اس کی تائید نقل کی ہے۔ اور قرآن مجید کی بعض آیات میں جو معبودان باطلہ کی تحقیر مذکور ہے وہ بقصد سبّ وشتم نہیں بلکہ مناظرہ میں بطور تحقیقِ مطلوب، و استدلال و الزامِ خصم کے ہے، جو مناظرہ میں مستعمل ہے، اور قرائن سے مخاطب کو فرق معلوم ہوجاتا ہے کہ تحقیق مقصود ہے یا تحقیر، اول جائز دوسرا ناجائز۔(فائدہ) : غیر قوم سے مناظرہ توجزء تبلیغ ہے لیکن دشنامی (تحقیر) اور دلخراش الفاظ ان کے معظمین (مقتدا) کے حق میں کہنا ممنوع لغیرہ ہے کہ وہ ہمارے معبود یا رسل و معظمین کی شان میں گستاخی کریں گے، تو گویا اس کے باعث ہم ہوئے۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ بیان القرآن سورۂ انعام پ:۷ ص:۱۱۸-۱۱۹