فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
اﷲ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِکَکے، پس کوئی کسی قسم کا وسوسہ نہ کرے، آپ گناہوں سے بالکل مقدس ومبرا ہیں ۔ رہا یہ شبہ کہ اگر یہ گناہ نہ تھا (عَبَسَ وَتَوَلّٰیکے شان نزول میں ) تو پھر عتاب کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ محبوب اپنے محب کو خلاف شان امر پر بھی عتاب کرسکتا ہے، مگرغیر محبوب کی مجال نہیں کہ دیکھئے ازواج مطہرات کے بارے میں حق سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے، یٰنِسَائَ النَّبِیِّ مَن یَّأتِ مِنْکُنَّ بفاَحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ یضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْن،کہ اگر تم سے ناشائستہ حرکت یعنی ایذاء رسول کا صدور ہوا تو دوگنی سزا ہوگی۔ آگے ارشاد ہے یٰنِسَائَ النَّبِی لَسْتُنَّ کَأحَدٍ مِنَ النِّسَائِ کہ تم اور عورتوں کی مثل نہیں ہو تمہارا معاملہ ہی جدا ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تجویز کیا گیا تھا، إذاً لأذَقْنٰـکَ ضِعْـفَ الْحَیٰوۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ، (جب تو ہم تم کو جیتے اور مرتے دوہری دوہری سزا کا مزہ بھی چکھا دیتے)۔ اسی طرح مقربین کو اجر بھی زیادہ ملتا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھ کو اکیلے اتنا بخار چڑھتا ہے جتنا تم میں دو کو چڑھتا ہے کیونکہ ہم کو اجر زیادہ ملتا ہے جتنا مطالبہ زیادہ ہے اسی قدر اجر بھی زیادہ ہے۔ بہر حال اس بلندی مرتبہ کی وجہ سے ایسے امور پر بھی عتاب ہوجاتا ہے، جو واقع میں ذنب نہیں ہوتے۔۱؎ (مثلاً) ایک روز بارش ہوئی ایک بزرگ کہنے لگے کہ آج کیسے موقع پر بارش ہوئی ہے، میں پوچھتا ہوں کہ یہ کلمہ ثناء شکر کا ہے یا نہیں ؟ مدح اور طاعت ہے یا نہیں ؟ ------------------------------ ۱؎ التبلیغ ۱۷؍ ۱۹۱