فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
وقت حق تعالی فرماتے ہیں کہ اگر تم پر کسی کا دَین (قرض) ہے تو پہلے بندہ کا حق ادا کرو زکوۃ ساقط ہے۔ یہاں فقہاء فرماتے ہیں کہ حق العبد حق اللہ پر مقدم ہے، اور یہ بھی حقیقت میں حق اللہ ہی ہے کیونکہ بندوں کے حقوق کا ادا کرنا حق تعالی ہی کے حکم کی وجہ سے تو لازم ہے۔ حق تعالی نے خود حکم دیا ہے بندوں کے حقوق ادا کرو، اس بناء پر یوں کہنا چاہئے کہ ایک حق اللہ دوسرے حق اللہ پر مقدم ہوگیا اس لئے حق اللہ وحق العبد میں تعارض بھی نہیں ، مگر چونکہ ظاہر میں حق العبد معلوم ہوتا ہے اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ حق العبد حق اللہ پر مقدم ہے مگر یہ ظاہری تقدیم ہے۔ اور ایک حقیقت کی بناء پر یہ ظاہری تقدیم بھی رفع ہوجاتی ہے اور وہ حقیقت حق تعالی نے میرے قلب پر وارد فرمائی ہے، میں نے منقول کہیں نہیں دیکھا وہ یہ کہ حق اللہ سے مراد حق النفس ہے کیونکہ جن امور کو حق اللہ کہا جاتا ہے وہ طاعات وعبادات ہیں ، اور ظاہر ہے کہ بندہ کے افعال سے حق تعالی کا نہ کوئی نفع ہے نہ ضرر ہے، بلکہ نفع یا ضرر جو کچھ ہے بندہ ہی کا ہے تو یقیناً حق اللہ میں جو اضافت ہے یہ اضافت نفع وضرر کی نہیں ہوسکتی جیسے حق العبد اضافت نفع یا ضرر کے لئے ہے کہ وہ ایسا حق ہے کہ جس کا ادا کرنا بندہ کو نافع اور اس کا تلف کرنا بندہ کو مضر ہے، اس طرح یہاں نہیں کہہ سکتے کہ یہ طاعات وعبادات ایسے حق اللہ ہیں کہ ان کا ادا کرنا خدا کو نافع اور تلف کرنا ان کو مضر ہے۔ (نعوذ باللہ) پس میرے نزدیک حق اللہ سے مراد حق النفس ہے اور حق العبد سے مراد حق الغیر ہے اس تفسیر پر دونوں جگہ اضافت یکساں ہوگی یعنی ہرجگہ اضافت نفع وضرر کی ہے پس حق اللہ یعنی حق النفس تو وہ ہے جس کا ادا کرنا اپنے آپ کو نافع، اور ضائع کرنا اپنے آپ کو مضر ہے اور حق العبد یعنی حق الغیر وہ ہے جس کا ادا کرنا دوسروں کو نافع اور تلف