فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
ابن تیمیہؒ نے یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے اس مسئلہ پر استدلال کیا کہ شاید زلیخا نے برأت یوسفی کا طریقہ قرینہ سے بتلایا تھا: اِنْ کَانَ قَمِیصُہُ قُدَّ مِنْ قُبُل ،الآیۃ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرینہ پر کسی کو مجرم قرار دینا جائز ہے اور یہاں حق تعالی نے اس امر پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔ اس کا جواب میری تقریر سے ظاہر ہوگیا کہ گو اس جگہ انکار نہیں مگر دوسری جگہ انکار موجود ہے ، چنانچہ ارشاد ہے: وَلاَتَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ اور ارشاد ہے فَاِذَا لَمْ یَأتُوْا بِالشُّہَدَائِ فَأولٰئِکَ عِنْدَ اﷲِ ہُمُ الْکَاذِبُوْنَ، اس میں صدق وکذبِ مدعی کا مدار محض شہادت شرعیہ پر رکھا گیا ہے لہٰذا نص میں نکیر موجود ہوتے ہوئے استدلال صحیح نہیں ہوسکتا، اسی لئے ہمارے علماء سب اس پر متفق ہیں کہ قرائن سے عقوبت کرنا صحیح نہیں ، ہاں متاخرین نے تعزیر متہم کو جائز کہا ہے مگر یہ مسئلہ ظالموں کے بتلانے کا نہیں ۔۱؎ اگریہ شبہ ہو کہ ’’شرائع من قبلنا‘‘ ہمارے اوپر حجت نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ’’شَرَائع مَنْ قبلنا‘‘ کو اگر ذکر فرما کر ان پر نکیر نہ فرمائی گئی ہو تو ہمارے لئے بھی حجت ہیں ۔۲؎ اس قاعدہ اصولیہ میں ایک قید مشہور ہے کہ نقل کرکے نکیر نہ کیا گیا ہو اس میں اتنی تنبیہ ضروری ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ اسی مقام پر نکیر ہو بلکہ کسی نص میں بھی نکیر ہونا کافی ہے، ورنہ تبریہ یوسف علیہ السلام کے قصہ میں جو اس شاہد کا قول منقول ہے، إنْ کَانَ قَمِیْصُہُ قُدَّ مِْن قُبُلٍ الآیۃ، اور اس مقام پر نکیر نہیں ہے تو لازم آتا ہے کہ ہماری شریعت میں بھی حجت ہو، اس سے ان لوگوں کا بھی جواب ہوگیا جو سجدۂ ملائکہ واخوان یوسف علیہ السلام سے جواز سجدہ ٔ تحیۃ پر استدلال کرتے ہیں وجہ جواب ظاہر ہے کہ ------------------------------ ۱؎ اجر الصیام ملحقہ جزاء وسزا ص ۱۴۲ ۲؎ الافاضات ص ۴۲۱قسط ۸