فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
کے قبیل سے ہے جو شارع علیہ السلام کی بحث سے خارج ہیں (اس لئے کہ بہتیرے کام بندے سے بھول چوک سے صادر ہوجاتے ہیں حالانکہ بندہ ان کا ارادہ نہیں کرتا) شارع کا مقصود احکام کو بیان کرنا ہوتا ہے نہ کہ بیان کیفیاتِ وجود کا۔ اب اس میں گفتگو ہوسکتی ہے کہ یہاں صحت اعمال مراد ہے یا ثواب اعمال، سو اس کا جواب حنفیہ نے کتب فقہ میں دے دیا ہے کہ چونکہ اعمال کا ثواب نیت پر موقوف ہونا اجماعی ہے اس لئے تقدیر صحت سے تقدیر ثواب اولیٰ ہے۔ اور ثواب ورضا باہم قریب قریب ہیں جب حق تعالی کسی عمل پر ثواب دیں گے تو اس سے راضی بھی ہوں گے دوسرے ثواب سے بھی رضاء ہی مقصود ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ رضاء ثواب کی اعلی فرد ہے۔ اس کے بعد حضور نے ہجرت کے متعلق صاف فرمادیا کہ اگر اس سے خدا مطلوب نہ ہو تو وہ شرعا قابل قدر اور لائق اعتبار نہیں ، اور اس سے خدا تک وصول نہ ہوگا، اسی طرح جملہ افعال شرعیہ میں غور کرلیا جائے کہ مقصود کی نیت اورقصد سب میں شرط ہے بدوں اس کے وہ موجب وصول نہیں ہوسکتی، نصوص شرعیہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بدوں نیت کوئی عمل مقبول نہیں ۔۱؎ (خلاصہ یہ کہ) اِنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتسے معلوم ہوتا ہے کہ نیت نہ کرنے سے اعمال کا ثواب نہیں ملتا، گو عمل متحقق ہوجائے اور بعض اعمال تو بلا نیت کے ہوتے ہی نہیں ، کیونکہ اعمال دو قسم کے ہیں بعض اعمال تو ایسے ہیں کہ ان کا تحقق بھی بلا نیت کے نہیں ہوتا، اور بعض ایسے ہیں کہ ان کا تحقق تو ہوجاتا ہے مگر ثواب نہیں ملتا، جیسے پڑھنا پڑھانا کہ اس کا تحقق بلا نیت کے بھی ہوجاتا ہے مگر ثواب نہیں ملتا، بخلاف نماز روزہ کے کہ ان کا تحقق ہی بلا نیت نہیں ہوتا۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ ما علیہ الصبرملحقہ التبلیغ ۱۷؍ ۱۳۴ ۲؎ آداب التبلیغ ملحقہ دعوت وتبلیغ ص:۱۹