بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
قافلہ مدینہ منورہ کی سرحد پر پہنچا ہے، بیٹے نے اپنے باپ عبداللہ بن ابی کا راستہ روک لیا، کہا کہ جب تک آقا صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو اجازت نہیں دیتے میں مدینہ میں آپ کو داخل نہ ہونے دوں گا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم پنی زبان سے اقرارکیجئے کہ محمدا تمام انسانوں میں سب سے معزز اور آپ سب سے ذلیل ہیں ، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے، ابن ابی بولا کہ میں بچوں اور عورتوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ انہیں چھوڑو، جانے دو، تب ابن ابی مدینہ میں داخل ہوسکا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حسن سلوک کا دوسروں پر بہت اچھا اثر پڑا اور ابن ابی کی پوزیشن بہت خراب ہوگئی۔(سیرت ابن ہشام:۳/۴۰۵ الخ، المغازی للواقدی:۱/۳۵۴ الخ، مختصر السیرۃ:۲۷۷) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر سے فرمایا کہ اگر میں ابن ابی کو اسی وقت قتل کرڈالتا توکچھ لوگ سمجھ سکتے تھے کہ میں نے زیادتی کی ہے؛ لیکن آج تو خود ان کے بیٹے ہی ان کو قتل کرنے کے لئے تیار ہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: بَارَکَ اللّٰہُ فِيْ رَأيِ رَسُوْلِہِ۔(سیرت ابن ہشام:۲/۲۹۳) اللہ نے اپنے رسول کی رائے میں برکت رکھی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں قبل از وقت کوئی اقدام غلط فہمیوں کا باعث ہوتا ہے، اور اس کا نتیجہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے، صحیح موقع کا صلی اللہ علیہ و سلم نتظار اور ضبط نفس پیغمبرا کا اسوہ ہے۔واقعۂ افک تیسرا پہلو واقعۂ افک ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ہیں ، واپسی میں لشکر نے مدینہ منورہ کے قریب ایک مقام پر قیام کیا ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لئے ہودج سے باہر ویرانے کی طرف جاتی