بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
خدایا: موت کی شدتوں پر میری مدد فرمایئے ،انبیاء، صدیقین،شہداء اورصالحین کی اس جماعت کے ساتھ جس پر آپ کا انعام ہوا، اے اللہ: میری مغفرت فرمادیجئے، مجھ پر رحم فرمادیجئے، رفیق اعلیٰ سے مجھے ملا دیجئے۔ پھر ۳؍مرتبہ فرمایا: اَللّٰہُمَّ فِيْ الرَّفِیْقِ الأَعْلَیٰ۔ اے اللہ میں رفیق اعلیٰ کو اختیار کرتا ہوں ۔(بخاری: المغازی: باب مرض النبی،و باب ما آخر ما تکلم بہ النبی) یہ کہنا تھا کہ روحِ مقدس قفسِ عنصری سے آزاد ہوگئی، اور حبیب اپنے محب کے حضور حاضر ہوگیا، ۲۲؍ہزار ۳۳۰؍دن اور ۶؍گھنٹے اس دنیا میں گذار کر سرکار دو عالم ااپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے ہیں ،اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔کہرام مچ گیا مدینہ منورہ میں کہرام مچا ہوا ہے، گریۂ پیہم طاری ہے، سب کے حواس معطل ہیں ، جوق درجوق صحابہ مسجد نبوی میں اکٹھا ہورہے ہیں ، حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ: مَا رَأَیْتُ یَوْماً قَطُّ کَانَ أَحْسَنَ وَ أَضْوَأَ مِنْ یَوْمٍ دَخَلَ عَلَیْنَا فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمَارَأَیْتُ یَوْمًا کَانَ أَقْبَحَ وَ لَا أَظْلَمَ فِیْ یَوْمٍ مَاتَ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔(مسند احمد:۳/۲۸۷) جس دن آقا مدینہ منورہ تشریف لائے تھے مدینہ کی ہرہر چیز روشن ہوگئی تھی، اور جس دن آپ کی وفات ہوئی، مدینہ کی ہرہر چیز تاریک ہوگئی۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی حالت بالکل دگر گوں ہے، انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی