بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہونے لگے، مقصد یہ تھا کہ مسجد کی آڑ میں ہم صلی اللہ علیہ و سلم پنی سازشی کارروائیاں کرتے رہیں گے اور مسلمانوں کو شبہ بھی نہ ہوگا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بطور برکت وہاں نماز ادا کرنے کی پیش کش بھی رکھی، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو تبوک سے واپسی پر ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی تمام سرگرمیاں بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتادیں ، اور بالآخر تبوک سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مسجد نما تخریب کے اڈے کو آگ لگوادی، قرآن میں فرمایا گیا: وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوا مَسْجِداً ضِرَارًا وَکُفْرًا وَتَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ مِنْ قَبْلُ، وَلَیَحَلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَا اِلَّا الْحُسْنَیٰ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ۔ (التوبۃ/ ۱۰۷) اور کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد اس کام کے لئے بنائی ہے کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں ، کافرانہ باتیں کریں ، اہل ایمان میں پھوٹ ڈالیں ، اور اس شخص کو ایک اڈہ فراہم کریں ، جس کی پہلے سے اللہ ورسول کے ساتھ جنگ ہے، اور یہ لوگ ضرور قسمیں کھاکھاکر کہیں گے کہ بھلائی کے سوا ہماری کوئی اور نیت نہیں ہے، مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ قطعی جھوٹے ہیں ۔(دیکھئے: سیرت ابن ہشام:۲/۵۲۱، زاد المعاد:۳/۲۵۱)منافقین کی بہانہ بازی سفر جہاد شروع ہونے سے پہلے منافقوں نے مختلف بہانوں سے چھٹی چاہی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم تھا کہ یہ بہانہ باز اور جھوٹے ہیں ، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان فتنہ پروروں کو دور رکھنا ہی بہتر سمجھا اور چشم پوشی سے کام لیا۔