بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے:بخاری: المغازی: باب حدیث کعب بن مالک) اللہ نے یہ ترتیب اس لئے اختیار کی کہ اگر صرف ان تینوں کی توبہ ہی کا ذکر ہوتا تو یہ احساس کم تری کا شکار ہوسکتے تھے، اللہ نے اپنے ان مخلص بندوں کو تنہائی اور کمتری کے احساس سے نکالنے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور انصار ومہاجرین کو بھی شامل فرمایا، یہ اللہ کی طرف سے ان کی عزت افزائی اور ان کی تسکین خاطر ہے۔ یہ واقعہ اپنے دامن میں ایک طرف تو یہ سبق رکھتا ہے کہ کسی بھی اجتماعی کام میں بغیر کسی معقول عذر کے امت کے کسی فرد کو پیچھے رہنے کی گنجائش نہیں ہوتی، اجتماعی مشن میں ہدفِ مقصود اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک ہر فرد اپنی ذمہ داری کو محسوس کرکے سر گرم عمل نہ ہو۔ دوسری طرف انسان کی اجتماعی وانفرادی زندگی میں صداقت اور راست بازی کی اہمیت بھی اس سے آشکارا ہوتی ہے، اسی لئے قرآن وحدیث کی تعلیمات صداقت اختیار کرنے اور جھوٹ سے بچنے کی واضح تلقینات سے لبریز ہیں ۔۹؍ ہجری کا حج راجح قول کے مطابق ۹؍ہجری میں حج بیت اللہ کی فرضیت کا حکم آیا اور یہ آیت نازل ہوئی: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔ (اٰل عمران/ ۹۷) لوگوں میں سے جو لوگ بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لئے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے ۔ ذی قعدہ ۹؍ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر الحج مقرر فرمایا اور تین سو صحابہ کو ان کے ہمراہ حج کے لئے بھیجا۔