بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اہل یثرب کی بے تابیاں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قافلے کے استقبال کے لئے پورا مدینہ فرشِ راہ ہے، شوقِ دیدار وزیارت ہر دل کو مضطرب کئے ہوئے ہے، کئی دن سے لوگ صبح سویرے ہی آبادی کے باہر نکل آتے ہیں ، دور راستے پر نگاہیں لگی ہوئی ہیں ، کب قافلۂ بہار جلوہ افروز ہوگا؟ دھوپ کی شدت بہت بڑھ جاتی ہے، تب یہ مشتاق مجمع وہاں سے ہٹتا ہے۔ (بخاری:المناقب: باب ہجرۃ النبی)قافلۂ نبوت قبا میں یہ ۸؍ربیع الاول کی تاریخ ہے، نبوت کا چودھواں سال ہے، جو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہجرت کا پہلا سال ہونے کی وجہ سے حضرت علیؓ کے مشورہ پر اسلامی تاریخ کا نقطۂ آغاز بنا۔(وفاء الوفاء:۲۷۸، الفاروق: علامہ شبلی نعمانی: ۴۲۵، سیرت المصطفیٰ:۱/۳۹۹، تقویم تاریخی: عبد القدوس ہاشمی:۱۰) ۲۳؍دسمبر ۶۶۲ء دوشنبہ کا دن، مشتاقانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ابھی طویل انتظار کے بعد لوٹے ہی تھے کہ ’’سلوم‘‘ نامی ایک یہودی نے اس قافلۂ حق کو آتا دیکھ کر آواز لگائی تھی: یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ! ہٰذا جَدُّکُمُ الَّذِی تَنْتَظِرُوْنَ۔ (بخاری: المناقب: باب ہجرۃ النبی) یثرب والو سن لو! تمہیں جس کا انتظار ہے وہ آگیا ہے،یہ تمہارا مقصود آن پہنچا ہے۔اشتیاق و استقبال پورا شہر بے تاب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے استقبال میں امنڈ آیا ہے، ۵۰۰؍انصار صحابہ کے جلو میں سرکار دو عالم اسفید لباس میں ملبوس قبا کی بستی میں داخل ہورہے ہیں ، ہر بام ودر نعرۂ اللہ