بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلاَئِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَبِیِّ، یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا صَلُّو عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْماً۔ (الاحزاب: ۵۶) بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ درود بذات خود اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے، اور اللہ کی رحمت اپنی طرف متوجہ کرنے کا سہل نسخہ ہے، یہ دعا بھی ہے اور ذاتِ رسالت ماٰب اسے اپنے والہانہ تعلق کا اظہار بھی ہے۔حضرت فاطمہؓ کا عقد شوال ۲؍ہجری میں پیغمبر علیہ السلام نے اپنی لاڈلی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کو (جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زیرتربیت وکفالت تھے) اور حضرت فاطمہ کو الگ گھر میں آباد کرنے کے لئے اس موقعہ پر سادہ لحاف، چمڑے کا معمولی گدا، پانی کی مشک اور دو مٹی کے گھڑے عنایت فرمائے۔(شرح الزرقانی: ۲/۲۶۰، سیرۃ المصطفیٰ :۲/۱۷۱-۱۷۲) اس درجہ سادگی سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹی کا عقد فرماکر امت کو تقریبات میں اسراف اور رسموں سے مکمل بچنے اور سادگی کے طریقے کو اپنانے کا پیغام رحمت دیا ہے، کاش اس باب میں امت اس نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سوہ کو سامنے رکھے تو کتنی کلفتیں اور الجھنیں ختم ہوجائیں ۔گستاخ یہودیہ کا انجام بد رمضان المبارک ۲؍ہجری کی ۲۶؍تاریخ کو ایک باغیرت نابینا مسلمان حضرت عمیر بن عدی نے گستاخِ رسول یہودی شاعرخاتون ’’عصماء‘‘ (جو اسلام، پیغمبر اسلام اکی ہجو اور مسجد کو گندا کرنے کی مجرم تھی) کو قتل کردیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمیر کے لئے کلماتِ خیر فرمائے، اور انہیں اللہ و رسول کی مدد کرنے والا قرار دیا۔(الصارم المسلول:لابن تیمیہ:۹۵الخ)