بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
تک کی زندگی کشمکشوں سے بھری گذری ہے، وہ اپنے وطن سے نکل کر یثرب آتا ہے تو سب سے پہلے ایک دستوری ریاست کی داغ بیل ڈالتا ہے، اور پھر ایسا جامع معاہدہ تیار کراتا ہے جس کی ہر ہر دفعہ اس کے تدبر کی شاہ کار ہے، اور جسے پڑھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا عظیم معجزہ ہے۔ وہ اصولِ سیاست جو ان معاہدات میں موجود ہیں : (۱) ریاست کے تمام شہریوں کو یکساں مساوی حقوق حاصل ہونا (۲) تمام شہریوں کے مذاہب وشعائر کا مکمل تحفظ (۳) آزادی کے ساتھ جینے کا حق ملنا (۴) بیرونی خطروں کا مشترکہ مقابلہ یہ سب موجودہ حالات میں بھی پوری دنیا کے لئے مشعل راہ ہیں ،پھر پوری سیرت بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تازندگی ان معاہدات کی خلاف ورزی نہیں کی، ہاں یہود نے بار بار ان معاہدات کی مخالفت کی، خاص طور پر بدر کی فتح کے بعد انہوں نے عملاً یہ عہد توڑ دیا تھا، اور پھر ان کو سزا دی گئی تھی، جس کا ذکر آگے آئے گا۔نظام مواخات دوسرا مثالی اور بے نظیر اقدام مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات (بھائی چارے) کا قیام ہے، مکہ سے ہجرت کرکے جو مسلمان مدینہ منورہ آئے تھے، ان کی حیثیت نئے شہر میں پناہ گزین جیسی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیش نظر یہ تھا کہ مہاجرین مدینہ کے معاشرے میں ضم ہوجائیں ، علاقائی بنیادوں پر کوئی تفریق اور کشمکش نہ پیدا ہونے پائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی آباد کاری کے لئے جو تدبیر اختیار فرمائی وہ مواخاۃ کہلاتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجرت کے پانچویں ماہ میں اصحاب سے فرمایا: