بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
حجر اسود کی تنصیب نبوت سے پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ۵ ۳؍سال کے ہوچکے ہیں ، شدید بارش سے سیلاب آیا، خانۂ کعبہ کی دیواریں متأثر ہوئیں ، کعبہ کی ازسر نو تعمیر کی بات طے ہوئی، صرف حلال رقم خرچ کرنا طے ہوا، کام شروع ہوا، درمیان میں حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے کے مسئلہ پر اختلاف ہوا، بنوہاشم تلوار لے کر آگئے کہ یہ اعزاز ہم کو ملے گا، ہم ہی اسے رکھیں گے، پھر یہ طے ہوا کہ کل صبح سب سے پہلے جو مسجد حرام میں آئے گا وہ فیصل ہوگا، سب اس کا فیصلہ مانیں گے، اللہ کا کرناایساہواکہ اگلے دن سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم آئے، سب نے خوش ہوکر کہا: ہٰذَا الأَمِیْنُ رَضِیْنَاہُ، ہٰذَا مُحَمَّدٌ۔ محمد آگئے، یہ امانت دار ہیں ، ہم ان کو حکم بنانے پر راضی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فیصلہ کیا، کیسی حکمت تھی؟ کیسی فراست تھی؟ کیسی اصابت رائے تھی؟ کیسی بصیرت تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک چادر منگوائی، چادر بچھائی، اپنے مبارک ہاتھوں سے حجر اسود اٹھاکر چادر کے درمیان رکھ دیا، فرمایا: ہر قبیلے کا سردار چادر کا ایک کونا پکڑکر اٹھائے، سب اٹھاکر لائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا کہ آپ سب لوگ اسے اس کی جگہ نصب کرنے کے لئے مجھے وکیل بنادیں ، سب نے بخوشی بنادیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نصب کردیا، اس طرح ایک الجھی گتھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حکمت سے ایک لمحہ میں سلجھ گئی، اور وہ مسئلہ جس پر قریب تھا کہ لاشوں کا ڈھیر لگ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح حل کردیا کہ سب خوش بھی ہوگئے اور خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہا۔(ملاحظہ ہو: سیرت ابن ہشام:۱/۱۹۲-۱۹۷)لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا اب وہ وقت قریب آرہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر پر آخری نبوت کا تاج رکھ دیا جائے،