بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔(صحیح بخاری: المناقب: باب مقدم النبی و اصحابہ المدینۃ ) اہل مدینہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد پر جس قدر خوش ہوئے کسی اور موقع پر اس درجہ خوش نہیں ہوئے۔آقا صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے کاشانے میں اللہ نے ازل سے یثرب میں میزبانیٔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سعادت حضرت ابوایوب انصاری کا مقدر بنادی تھی، اونٹنی ابوایوب کے مکان کے پاس رکی۔ (بخاری: المناقب: باب ہجرۃ النبی) ابوایوب کو خود اپنی خوش نصیبی پر کتنا ناز ہوا ہوگا؟ پورا یثرب کس طرح ان پر رشک کررہا ہوگا؟ ابوایوب بے تابی سے لپکے، آج ان کے گھر کامہمان کوئی عام انسان نہیں تھا، آج کائنات کا محسن اعظم اکاشانۂ ابوایوب کا مکین تھا، دیوار ودر مسکرارہے تھے، یہ صرف ایک فرد کی آمد نہیں تھی؛ بلکہ ایک انقلاب آفریں عہد اور تاریخ ساز دور کی آمد تھی، یہ اس ابر رحمت کی آمد تھی، جو پوری انسانیت کے لئے ہدایت کی فصل بہار لے کر آیا تھا۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ ظہور اسلام سے سات صدی قبل یمن کا بادشاہ تبع اسعد ۴۰۰؍یہودی علماء کے ساتھ یثرب کی طرف سے گذرا تھا، اس نے شہر پر حملے کا ارادہ کررکھا تھا، اس وقت شہر میں موجود کچھ علماء یہود تبع سے ملے تھے، اور کہا تھا اے بادشاہ! تورات میں اس بستی کانام طیبہ ہے، یہ بستی اولادِ اسماعیل میں آنے والے آخری نبی کا مقام ہجرت ہے، ان کا قیام یہیں رہے گا، تم اس بستی پر ہرگز غالب نہ آسکوگے، یہ بستی حفاظت الٰہی کے حصار میں ہے، یہ سن کر بادشاہ نے اپنا ارادہ بدل دیا، اس کے ہمراہی سیکڑوں علماء نے یہیں قیام کی اجازت چاہی، بادشاہ نے ان کے لئے مکانات بناکر آباد کردیا، ایک مکان بطور خاص نبی