بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
میرے علم میں نہیں ہے کہ اللہ کی کسی اور زمین میں اتنی خشک سالی رہی ہوجتنی ہمارے علاقہ میں تھی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وجود کی برکت دیکھئے، حضرت حلیمہ کی بکریاں عین اسی خشک سالی کے عالم میں جنگل سے پیٹ بھرکر آتی تھی اور خوب دودھ دیتی تھیں ، انہیں برکتوں کے سائے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دو سال گذر جاتے ہیں ، حضرت حلیمہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دودھ چھڑادیتی ہیں ، مکہ لاتی ہیں ، حضرت آمنہ سے ملواتی ہیں ، اصرار کرتی ہیں کہ بچے کو ابھی کچھ عرصہ اور انہیں کے پاس رہنے دیا جائے، حضرت آمنہ تیار ہوجاتی ہیں ۔شق صدر اور واپسی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر ابھی چار سال ہوئی ہے، آپ حضرت حلیمہ کے ہاں مقیم ہیں ، بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ، اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لٹاتے ہیں ، سینہ چاک کرتے ہیں ، آپ کا دل نکالتے ہیں ، دل سے ایک لوتھڑا نکالتے ہیں ، کہتے ہیں کہ یہ شیطان کا حصہ ہے ،اسے پھینک دیتے ہیں ، دل کو ایک طشت میں زمزم کے پانی سے دھوتے ہیں ، اسے پھر اس کی جگہ پر رکھ کر جوڑدیتے ہیں ، بچوں نے یہ واقعہ حلیمہ کو بتایا، وہ ڈرجاتی ہیں ، خدشات محسوس کرنے لگتی ہیں ، فوراً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ لاتی ہیں ، حضرت آمنہ کے حوالے کردیتی ہیں ، حضرت آمنہ اچانک واپس لانے کی وجہ پوچھتی ہیں ، حلیمہ ٹالتی ہیں ، آمنہ کا اصرار بڑھتا ہے، مجبوراً پورا واقعہ بتاتی ہیں ، حضرت آمنہ کہتی ہیں : أَتَخَوَّفْتِ عَلَیِہِ الشَّیْطَانَ، کَلاَّ وَاللّٰہِ مَا لِلشَّیْطَانِ عَلِیْہِ مِنْ سَبِیْلٍ، وَإِنَّ لِبُنَيَّ لَشَأْناً، رَأَیْتُ حِیْنَ حُمِلْتُ بِہِ أَنَّہُ خَرَجَ مِنِّي نُوْرٌ أَضَائَ لِيْ قُصُوْرَبُصْرَیٰ مِنْ أَرْضِ الشَّامِ، فَوَ اللّٰہِ مَاْ رَأَیْتُ مِنْ حَمْلٍ قَطُّ کَاْنَ أَخَفَّ عَلَيَّ وَلاَ أَیْسَرَ مِنْہُ۔