بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اے پیغمبر: حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو خود چاہو، ہدایت تک نہیں پہنچاسکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ، ہدایت تک پہنچادیتا ہے ،اور ہدایت قبول کرنے والوں کو وہی خوب جانتا ہے ۔ (بخاری:باب قصۃ ابی طالب)شریک حیات کے فراق کا صدمہ ابوطالب کی وفات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ایک پشت پناہ سرپرست سے محرومی تھی، ابھی یہ زخم تازہ تھا کہ دو ماہ یا تین دن کے بعدرمضان ۱۰؍نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریک حیات حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا داغِ مفارقت دے گئیں ، اس طرح ایک ربع صدی کی بے مثال رفاقت ختم ہوئی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے بہت مضبوط سہارا تھیں ۔ (طبقات ابن سعد: ۸/۲۱۷) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: خدیجہ نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلادیا اور اس وقت اسلام لائیں جب لوگ کفر میں تھے،اور اس وقت اپنے مال میں شریک کیا جب کوئی مدد کو تیار نہ تھا۔ (مسند احمد: ۶/۱۱۸)عام الحزن یہ پے در پے دو سنگین حادثے تھے، یہ سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ’’عام الحزن‘‘ ثابت ہوا، اور اسی نام سے معروف ہوا۔حضرت سودہؓ سے نکاح اسی سال(۱۰؍ نبوی) ماہ شوال میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عقد حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے ہوا، یہ قریش کی معزز اور قدیم الاسلام خاتون ہیں ،حضرت خدیجہؓ کے بعد یہ پہلی خاتون ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح فرمایا، چند سالوں کے بعدانہوں نے اپنی باری حضرت عائشہؓ کوہبہ فرمادی تھی۔ (رحمۃ للعالمین:۲/ ۱۶۵)