بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اے محمد :آپ کے پاس آنے والا یہ فرشتہ وہی رازدار فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کے پاس بھیجاتھا، اے کاش: میں آپ کی دعوت کے ایام میں طاقتور ہوتا،اے کاش: میں اس وقت زندہ رہتا اور آپ کی مدد کرتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکالے گی۔ اس پر آپ نے تعجب سے پوچھا تھا: أَوَ مُخْرِجِيَّ ہُمْ؟ کیا مکہ والے مجھے نکال دیں گے؟ اس پر ورقہ نے کہا تھا: نَعَمْ، لَمْ یَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِہٖ إِلَّا عُوْدِيَ، وَإِنْ یُدْرِکْنِي یَوْمُکَ اَنْصُرْکَ نَصْراً مُؤَزَّراً۔(بخاری:کتاب الوحی) ہاں : تمہیں ہجرت پر مجبو ر ہونا پڑے گا، حق کا جو پیغام تم لائے ہو، تم سے پہلے جو بھی یہ پیغام لایا ہے ،اس کی مخالفت ضرور کی گئی ہے ،اگر مجھے تمہارا زمانہ ملے گاتو میں قوت کے ساتھ تمہاری مدد کروں گا۔سابقین اولین ورقہ نے نبوتِ محمدی اکی تصدیق سب سے پہلے کی، امت میں قبولِ اسلام کا اعزاز سب سے پہلے حضرت خدیجہ کو حاصل ہوا، یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت وکمال کا ایک روشن ثبوت ہے کہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حقانیت ورسالت کا اقرار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریک حیات نے کیا، آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ، یہ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں سب سے سبقت کا شرف حاصل ہوا۔ تین سال تک خفیہ دعوت کا عمل جاری رہا، حضرت صدیق اکبرص کی کوششوں سے