بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
خطاب و بیعت دوسرے دن کوہِ صفا پر آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے حرم مکہ کی عظمت وتقدس کے موضوع پر خطبہ دیا ہے، اور تا ابد اس کی حرمت کا اعلان فرمادیا ہے، صفا ومروہ کے تمام بت ختم کردئے گئے ہیں ۔ (البدایۃ والنہایۃ:۴/۷۲۳) پھر عام بیعت لی گئی ہے، مردوں سے بھی اور عورتوں سے بھی، عورتوں میں ابوسفیان کی بیوی ہندہ بھی ہیں ، جنہوں نے معرکہ احد میں عم رسول سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کی عجیب بے حرمتی کی تھی، مگر آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے سب کچھ بھلاکر انہیں دامن عضو میں جگہ دے دی ہے۔ (الکامل: لابن الاثیر:۲/۹۶، القرطبی:۱۸/۷۱: سورۃ الممتحنہ،سیرت المصطفیٰ:۳/۳۷)انصارکو یقین دہانی انصارِ مدینہ نے آقائے نامدار اکا یہ اندازِ عفو ورحمت دیکھا تو ان کے دلوں کا یہ خیال زبان پر بھی آیا کہ اب کہیں آقا صلی اللہ علیہ و سلم یہیں مقیم نہ ہوجائیں ، اور مدینہ واپس نہ جائیں ، بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر ملی، انصار کو بلایا، فرمایا کہ: اے گروہِ انصار! میں تمہارے ساتھ کیا ہوا اپنا عہد کیسے نہیں نبھاؤں گا؟ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں ، میں اللہ کے حکم سے تمہاری طرف ہجرت کرکے آیا ہوں ، ’’المَحْیَا مَحْیَا کُمْ وَ الْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ‘‘ اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ ہے اور موت بھی تمہارے ساتھ ہے۔ یہ سن کر انصار زار وقطار رونے لگے، رقت وگریہ کے عالم میں بولے : یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ! ہم نے سمجھا تھا کہ کہیں ہم سے یہ دولت کونین چھین نہ لی جائے، ہم کہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ بابرکات سے محروم نہ ہوجائیں ۔ (مسلم:الجہاد: باب فتح مکۃ)