بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
واقعہ فتح کے روح پرور پیغامات اورگوشے فتح مکہ کا یہ عظیم واقعہ اپنے دامن میں عبرت وموعظت کے بہت سے پہلو رکھتا ہے: (۱) اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو مکہ کے اپنے مکانات سے دست بردار ہونے کی بھی تلقین کی تھی اور خود اپنے مکان میں بھی اترنے سے گریز فرمایا تھا۔ (پیام سیرت:مولانا خالد سیف اللہ رحمانی:۱۵۹) یہ آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی معاملہ فہمی، تدبر اور حکمت عملی کا بہت واضح نمونہ ہے، اگر ایسا کیا جاتا تو خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہوسکتی تھی اور اہل مکہ کو ایمان کے قریب لانے کی کوششیں متاثر ہوجاتیں ، اس طرح یہ پیغام دیا گیا کہ حکمت ومصلحت اور دعوتِ دین کے تقاضے پر مسلمانوں کو اگر اپنے کچھ حقوق سے دست بردار ہونے اور دوسروں کے لئے ایثار کا موقع آئے تو ایسا کرنا چاہئے۔ (۲) اس سفر میں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ مکرمہ کے سب سے بڑے سردار ابوسفیان کو یہ اعزاز بخشا کہ یہ اعلان فرمادیا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے امان ملے گی، دوسری طرف انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ایک نعرے کو ناپسند فرماکر علم قیادت ان سے لے کر ان ہی کے فرزند کو عطا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل یہ پیغام دیتا ہے کہ ملت کے قائد اعلیٰ کو ماتحتوں کی نفسیات کی رعایت رکھنی چاہئے اور حسب مقام ومرتبہ معاملہ ہونا چاہئے، چناں چہ ابوسفیان کو اعزاز دیا گیا اور مصلحۃً حضرت سعد سے اعزاز لیا گیا، تو انہیں کے صاحب زادے کو دیا گیا۔ (۳) اس فتح عظیم کے موقع پر فاتحانہ وشاہانہ انداز کے بجائے عاجزانہ ومتواضعانہ انداز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مکہ مکرمہ میں داخلہ خوشی اور کامیابی کے ہر موقع پر امت کے ہر فرد کو تعلّی وتکبر اور فخر وغرور کے بجائے تواضع اور عجز کی روش اختیار کرنے کا سبق دیتا ہے۔