بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
دایاں ہاتھ کاٹ دیا ہے، انہوں نے علم بائیں ہاتھ میں سنبھال لیا ہے، حریف نے بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا ہے، تو حضرت جعفر نے دونوں کٹے ہوئے بازؤوں کا حلقہ بناکر علم نبوی کو سینے سے لگالیا ہے، پھر کسی دشمن نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ جسم کو دو ٹکڑوں میں کاٹ دیا، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے جسم پر ۹۰؍ سے زائد زخم شمار کئے گئے ہیں ۔ (سیرت ابن ہشام:۴/۲۰، بخاری: المغازی: باب غزوۃ موتۃ) اب علم حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آیا ہے، بالآخر انہوں نے بھی جام شہادت نوش کرلیا ہے، اس کے بعد ہنگامی حالات میں حضرت خالد بن الولید کو کمانڈر منتخب کیا گیا اور علم ان کے ہاتھ میں آیا، انہوں نے نئی ترتیب، صف بندی اور جنگی حکمت عملی سے دشمنوں کے نرغے سے اسلامی فوج کو باہر نکال لیا، اس دن دشمنوں کے خلاف حملے میں حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے ۹؍تلواریں توڑ ڈالیں ۔ (بخاری:المغازی: باب غزوۃ موتۃ) اور حکمت سے دشمنوں کو ہر ممکن نقصان پہنچاکر اور ان پر دھاک جماکر بحفاظت لشکر اسلامی کو واپس لے آئے۔زبان نبوت سے مدینے میں میدان جنگ کی منظر کشی اسی غزوہ کی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اُدھر موتہ کے میدان میں گھمسان کا رن ہورہا ہے، اِدھر مسجد نبوی میں دیوار قبلہ پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پوری جنگ کا منظر دکھایا جارہا ہے، گویا فاصلوں کے حجابات ہٹادئے گئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھیں اشک بار ہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کو بتارہے ہیں کہ زید شہید ہوگئے ہیں ، جعفر نے علم لیا ہے، وہ بھی لڑتے لڑتے اپنے رب سے جاملے ہیں ، اللہ نے انہیں جنت میں اڑنے کے لئے دو پر اور بازو عطا کردئے ہیں ، اسی لئے ان کو ’’ذُوْالْجَنَاحَیْن‘‘ (دوبازوؤں والا) اور ’’طَیَّارْ‘‘ (اڑنے والا) کہا جاتا ہے،