بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
قابل غور ہے کہ ۱۸؍سالہ عتاب کو اسلام قبول کرتے ہی مرکزی علاقے مکہ کا گورنر بنایا جارہا ہے۔(سیرت احمد مجتبی :۳/۲۴۰) پرانی قیادت کو ذمہ داری نہیں سونپی جارہی ہے، حضرت ابوسفیان کو یہ ذمہ داری نہیں ملی، حضرت عباس کو یہ منصب نہیں ملا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان پرانے اور بزرگ افراد کے تجربات سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ میں فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، اور مکہ مکرمہ کے حالات پر عزم، حوصلہ مند اور جوان قیادت کے طالب تھے۔ (خطبات سیرت: مولانا سید سلمان ندوی:۳۱۵) حضرت عتاب رضی اللہ عنہ کی امارت کا یہ واقعہ تمام جوانانِ امت کے لئے اپنی صلاحیتوں کو دین کے لئے وقف کردینے، مقصدیت اور ذمہ داری کا احساس وشعور بیدار کرنے اور اپنے مقام کو سمجھنے کا نمایاں پیغام دے رہا ہے۔لشکر اسلام کی پیش قدمی اور تیاری ۶؍شوال المکرم ۸؍ہجری کی صبح ہے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں بارہ ہزار افراد پر مشتمل لشکر اسلامی پورے جوش وخروش کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکل رہا ہے، اس لشکر میں غیرتربیت یافتہ نومسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، کچھ ایسے غیرمسلم بھی شامل ہیں جن کو صرف مالِ غنیمت کی حرص لے جارہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صفوان بن امیہ سے (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے ہیں ) بطور عاریت اچھے خاصے ہتھیار بھی لئے ہیں ، مکہ کے مختلف افراد سے ایک لاکھ تیس ہزار درہم کی خطیر رقم جنگی وسائل واسباب کے لئے بطور قرض حاصل کی ہے، سیرتِ نبویہ کے اب تک کے غزوات میں سب سے زیادہ تیاری اور کثرت تعداد کے ساتھ اس غزوہ کے لئے لشکر اسلام حنین کی جانب محوِ سفر ہے۔ (تاریخ ابن خلدون:۱/۱۶۸، نقوش رسول نمبر:۱۱/۴۷۵، زاد المعاد:۲/۳۱۹)