بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
حضرت ابو بکرؓ کا امامت نماز کے لئے انتخاب ۷؍ربیع الاول ۱۱؍ہجری کی تاریخ ہے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا مرض بڑھا ہوا ہے، عشاء کی نماز کے لئے کئی بار بدن پر مشکیزوں سے پانی ڈلوایا ہے، مگر رہ رہ کر بے ہوشی ہوجاتی ہے۔ (بخاری:المغازی:باب مرض النبی) لوگ مسجد میں منتظر ہیں ، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مُرُوا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ۔ ابو بکر کو حکم دو ، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ابوبکر رقیق القلب ہیں ، ان کے لئے امامت دشوار ہوگی، آپ عمر کوحکم دے دیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ناراضگی کا اظہار کیا، اور سختی سے حکم فرمادیا کہ ابوبکر ہی امام ہوں گے۔(بخاری:الصلوۃ: باب حد المریض أن یشہدالجماعۃ) اس طرح یہ واضح کردیا گیا کہ اللہ اور اہل ایمان ابوبکر کے سوا کسی کی امامت پر راضی نہ ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے امامت صغریٰ کے لئے صدیق اکبر کے انتخاب نے یہ بھی گویا طے کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد امامت کبریٰ وخلافت کے لئے اولین مستحق اور موزوں شخصیت انہیں کی ہے، بالآخر ایسا ہی ہوا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حیاتِ نبوی میں ۷؍ربیع الاول ۱۱؍ہجری کی عشاء سے ۱۲؍ربیع الاول کی فجر تک کل ۲۱؍نمازیں پڑھائیں ۔(اصح السیر:۵۷۷)آپ صلی اللہ علیہ و سلم امام اور حضرت ابوبکرؓ مکبر ۸؍ربیع الاول جمعرات کو ظہر کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی میں دو آدمیوں کے سہارے سے آتے ہیں ، صورتِ حال یہ ہے کہ چلا نہیں جاتا، پیر زمین پر گھسٹ رہے ہیں ، صدیق اکبر امامت کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد پر وہ مکبر بن جاتے ہیں ۔ (بخاری:الصلوۃ: باب حد المریض الخ)