بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اب علم عبد اللہ بن رواحہ نے لیا ہے، انہوں نے بھی جام شہادت نوش کرلیا ہے، اب علم’’سَیْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ‘‘ (اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار) خالد بن ولید نے لے لیا ہے، اور ایسی جنگ لڑی ہے کہ صلی اللہ علیہ و سلم للہ نے فتح عطا فرمائی۔ (بخاری:المغازی: باب غزوۃ موتۃ، الخصائص للسیوطی:۱/۲۶۰) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے ان قریبی صحابہ کی شہادت کا بے حد صدمہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حوصلہ بڑھانے کا انداز معرکہ موتہ کے مجاہدین کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ سے باہر نکل کر استقبال کیا اور کچھ جوشیلے افراد سے ان مجاہدین کے بارے میں ’’فَرَّارُوْنَ‘‘ (بھاگ آنے والے) کا لفظ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ’’لَا بَلْ کَرَّارُوْنَ‘‘(یہ بھاگنے والے نہیں ، بلکہ دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے والے ہیں ) فرمایا۔ (طبقات:۱/۴۲۳ صلی اللہ علیہ و سلم لخ) شہداء کے پسماندگان کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تسلی دی۔جنگ موتہ کا اثر اس جنگ نے رومیوں پر مسلمانوں کی دھاک بٹھادی، اور دوسری طرف تمام عرب انگشت بدنداں رہ گئے، رومی اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی قوت تھے، ان سے مسلمانوں کا ٹکراجانا محیر العقول کام تھا، پھر اسی معرکے سے رومیوں کے ساتھ خوں ریز مقابلہ شروع ہوا، جو آگے چل کر رومی ممالک کی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ mvm