بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اسلام قبول کرلیں گے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے اہل نجد سے صحابہ پر خطرہ ہے، وہ بولا کہ وہ لوگ میری امان میں رہیں گے، چناں چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل صفہ میں سے ستر قراء وعلماء صحابہ منتخب فرماکر روانہ کردئے، اور حضرت منذر بن عمرو کو امیر بنایا۔ یہ قافلہ بیرمعونہ (ایک کنواں ) پہنچا تو نجد والوں نے بدعہدی کی اور صحابہ کو گھیر کر بے دردی سے شہید کرڈالا، صرف ایک صحابی کسی طرح زندہ بچ سکے، ان واقعات پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بے پناہ صدمہ ہوا اور مسلسل ایک ماہ یا ۴۰؍دن تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان بدعہد وظالم قبائل کے خلاف نام بنام بددعا کے لئے نمازوں میں اور بطور خاص فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھتے رہے،تاآں کہ یہ پوری ظالم بستی طاعون کی وباء میں ہلاک ہوگئی،اور یہیں سے اہل ایمان کے لئے ہنگامی حالات میں قنوتِ نازلہ کی سنت جاری ہوئی۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۱۸۳الخ، بخاری: المغازی: باب غزوۃ الرجیع)یہود بنی نضیر کا انجام مدینہ منورہ میں یہود کا ایک قبیلہ ’’بنو نضیر‘‘ تھا، جو مسلمانوں کے ساتھ معاہدات میں شامل تھا، اس قبیلے کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کی ایک ناپاک سازش بنائی، کسی مقدمے کے فیصلے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنونضیر کی آبادی میں تشریف لے گئے، انہوں نے ایک دیوار کے سائے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بٹھایا اور چپکے سے دیوار کے اوپر ایک آدمی چڑھادیا اور بھاری پتھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر پھینکنے کا حکم دیا، اللہ نے بذریعہ وحی یہ خبر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتادی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم فوراً وہاں سے اٹھ کر آگئے اور پیغام بھجوادیا کہ دس دن کی مہلت ہے، مدینہ خالی کردو، ورنہ قتل کردیئے جاؤ گے۔ شروع میں تو انہوں نے اکڑ دکھائی، مہلت ختم ہوئی، مگر نہیں نکلے، قلعوں میں بند ہوگئے، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے محاصرہ کرلیا، محاصرے میں ان کے جو باغات رکاوٹ بن رہے