بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
مگر پھر یہ قافلہ بڑھتا چلا گیا ؎ میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر راہ رو آتے گئے اور کارواں بنتا گیاقریش کی طرف سے مفاہمت کا فارمولہ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بے مثال کردار قریش کے سردار صحن کعبہ میں فکر وغم میں الجھے ہیں ، بیت اللہ کے سائے میں دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم تنہا تشریف فر ما ہیں ، مشرکین سب وشتم، زجر وتنبیہ، لعن وطعن، ایذا وتکلیف رسانی کے تمام حربے آزماچکے ہیں ، کوئی وار کارگر نہیں ہوا ہے، ان کے ترکش میں اب صرف ایک ہی تیر بچا ہے: تحریص، ترغیب، لالچ، سودے بازی اور پیش کش کا تیر، ابوالولید عتبہ اپنے ساتھیوں سے کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا ہے، بڑی محبت اور لگاوٹ سے کہتا ہے: محمد! تم بھائی ہو، بھتیجے ہو، یہ کیسا دین ہے؟ تمہارا مقصد کیا ہے؟ (۱) اگر تم دولت کے خواہش مند ہو ، اس دین کی دعوت چھوڑدو ، دولت کے خزانے تمہارے قدموں میں نچھاور کردئیے جائیں گے ۔ (۲) اگر تم عورت کے خواہش مند ہو، اس دین کی دعوت چھوڑ دو، عرب کی سب سے حسین خاتون تمہیں پیش کردی جائے گی۔ (۳) اگر تمہیں حکومت کی آرزو ہے ،اس دین کی دعوت چھوڑ دو ، ہم تمہیں متفقہ طور پر اپنا حاکم تسلیم کرلیں گے۔ (۴) اگر تم بیمار یا آسیب زدہ ہو ، اس دین کی دعوت چھوڑ دو ، ہم بہر صورت اور بہر قیمت تمہارا علاج کرائیں گے ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ابو الولید کہہ چکے؟ بولا ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اب میری بات بھی سن لو، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ حم سجدہ کی تلاوت شروع کی: