بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ خواب سچا اور من جانب اللہ ہے، وحی الٰہی نے خواب کی تائید کی، حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اذان دلوائی گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس طرح کا خواب حضرت عمر سمیت متعدد صحابہ نے دیکھا، اذان کی مشروعیت کا یہ عمل ہجرت کے بعد ابتدائی مرحلے میں اور پہلے ہی سال میں ہوا ہے۔ (دیکھئے:شروح احادیث، مرقاۃ المفاتیح: باب صلی اللہ علیہ و سلم لاذان، سیرت المصطفیٰ:۱/۴۴۱-۴۴۹)اذان: اصول دین کاواضح اعلان غور کیا جائے تو اذان واقامت کے کلمات اسلامی عقائد اور دین کے بنیادی اصول کا بہت جامع اور مؤثر اعلان ہیں ، ان میں اللہ کی عظمت، کبریائی، اُلوہیت، وحدانیت، پھر رسول صلی اللہ علیہ و سلم صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا اقرار، سب سے افضل عبادت نماز کی دعوت اور فلاح کی راہ پر آنے کا پیغام سب کچھ ہے۔ اسی لئے اسے اسلام کا شعار قرار دیا گیا ہے، احادیث میں وارد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل اسلام کو کلمات اذان کا جواب دینے اور اذان کے بعد دعائے مسنون پڑھنے کی تاکید کی ہے، اس دعا میں اللہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے مقامِ وسیلہ (جو جنت کا اعلیٰ مقام ہے) اور فضیلت کی درخواست بھی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مقام محمود (شفاعت کبریٰ کے مقام) پر فائز کئے جانے کی التجاء بھی ہے۔حضرت عبداللہ بن سلام کا قبول اسلام مدنی زندگی کے اسی دورِ آغاز میں مشہور یہودی عالم حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشرف باسلام ہوئے ہیں ، بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ انہیں بنو النجار میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قیام کی اطلاع ملتی ہے، بعجلت تمام حاضر ہوتے ہیں ، عرض کرتے ہیں کہ: اجازت ہو تو تین سوال کرنا چاہتا ہوں ، ان سوالوں کے جواب نبی کے سوا کسی کو معلوم نہیں