بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
کے ساتھ کوہِ استقامت بن کر میدان میں ڈٹے رہے۔ آپ سیرت پڑھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سفید خچر پر سوار ہیں ، حضرت عباس خچر کی لگام پکڑے ہوئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر حضرت عباس آواز لگارہے ہیں : یَا لَلْمُہَاجِرِیْنَ! یَا لَلأنْصَارِ!یَا أَصْحَابَ صلی اللہ علیہ و سلم لسَّمُرَۃِ! اے مہاجرین: کہاں جارہے ہو؟انصار کہاں ہیں ؟اے کیکر کے نیچے بیعت رضوان کرنے والو: تم کہاں ہو؟ (مسلم: الجہاد:باب غزوۃ حنین، سیرت احمد مجتبی:۳/۲۵۰) یہ صدا سنتے ہی مجاہدین عزم وولولہ سے لبریز جذبات کے ساتھ واپس لوٹ رہے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ و سلم سواری سے اترکر عالم جلال میں یہ رجزیہ شعر پڑھ رہے ہیں ؎ أَنَا النَّبِيُّ لاَ کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ میں نبی ہوں ، اس میں کوئی جھوٹ وغلط بیانی نہیں ہے، میں عبد المطلب کی اولاد میں ہوں ۔ (بخاری:المغازی:باب قول اللہ تعالیٰ: ویوم حنین الخ)زبردست معرکہ اور فتح مبین اس کے بعد گھمسان کا مقابلہ ہوا ہے، لشکر اسلام نے دشمنوں کے کشتے کے پشتے لگادیئے ہیں ، اللہ نے ایک آزمائش سے گذارنے کے بعد اپنی غیبی نصرت کے ذریعہ فتح مبین عطا فرمادی ہے، اس معرکہ میں ۴؍مسلمانوں کو اعزازِ شہادت ملا ہے، دشمن کے ۷۰؍افراد قتل ہوئے ہیں ، ۶؍ہزار مرد عورتیں اور بچے قید ہوئے، ۲۴؍ہزار اونٹ، ۴۰؍ ہزار سے زائد بکریاں ، ۶؍کوئنٹل سے زائد چاندی، اتنی خطیر وبیش قیمت دولت مالِ غنیمت کے طور پر مسلمانوں کو ملی ہے۔ (جوامع السیرۃ:لابن حزم:۲۶۲، تاریخ طبری:۱/۴۲۷)