بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہے ،ہم اسی کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں ،ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے سردار و آقا محمدا اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ خطبہ سن کر ضماد کے فکر ونظر کی دنیا بدل گئی، دوبارہ سنا، سہ بارہ سنا، بے اختیار بول پڑے: لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْکَہَنَۃِ وَقَوْلَ السَّحَرَۃِ وَقَوْلَ الشُّعَرَائِ، فَمَا سَمِعْتُ مِثْلَ کَلِمَاتِکَ ہٰؤلائِ، وَلَقَدْ بَلَغْنَ قَامُوْسَ الْبَحْرِ۔(مسلم شریف: کتاب الجمعۃ:۱/۲۸۵) میں نے کاہنوں کی بات بھی سنی ہے ، جادوگروں کے الفاظ بھی سنے ہیں اور شعراء کاکلام بھی سنا ہے ،لیکن آپ کے اس کلام کے مانند کوئی کلام میں نے آج تک نہیں سنا،آپ کے کلمات تو دریائے فصاحت میں ڈوبے ہوئے ہیں ، آپ یہاں فرمارہے تھے، مگر اس کی تاثیر سمندر کی تہہ تک محسوس ہورہی تھی۔ اس کے بعد ضماد نے اسلام قبول کرتے ہوئے عرض کیا : میں آپ کے ہاتھ پر اپنی طرف سے اور اپنی قوم کی طرف سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں ۔( ملاحظہ ہو: مشکوۃ المصابیح: کتاب الفضائل: باب علامات النبوۃ)حضرت حمزہؓ : دامن اسلام میں آگے بڑھئے! حضور صلی اللہ علیہ و سلم صفا پہاڑی پر سے گذر رہے ہیں ، ابوجہل سامنے آگیا، گالیاں دے رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم دعا دے رہے ہیں ، پتھر سے زخمی کررہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم صبر کررہے ہیں ، دور سے ایک لونڈی یہ منظر دیکھ رہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حمزہ ابھی حلقہ بگوشِ