بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
دشمن کی تیاری قبیلہ ہوازن وثقیف کے لوگ طلوعِ اسلام کے وقت ہی سے اسلام کے بدترین دشمن تھے، فتح مکہ کا واقعہ پیش آنے کے بعد انہیں یہ گمان ہوا کہ اب ہماری باری آسکتی ہے، انہوں نے یہ طے کیا کہ قبل اس کے کہ مسلمان ہم پر حملہ آور ہوں ، ہم کو خود ان پر اقدامی حملہ کردینا چاہئے، چناں چہ اپنے سردار مالک بن عوف کی قیادت میں دونوں قبیلوں کی فوجیں چار ہزار کی تعداد میں وادئ اوطاس میں جمع ہوئیں ، مالک بن عوف کے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر صرف مرد جنگ کے لئے جائیں گے تو ان کے دل اپنی خواتین اور مال وعیال کی طرف متوجہ رہیں گے، چناں چہ اس نے اپنے لشکر کے ساتھ تمام عورتیں ، بچے، مویشی اور مال ودولت کے تمام خزانے بھی لے لئے؛ تاکہ ان کی موجودگی میں تمام جنگجو تندہی سے لڑیں اور ان کی حفاظت کی خاطر کسی بھی قربانی میں دریغ نہ کریں ۔ لشکر میں ایک تجربہ کار ماہر حرب ایک سو بیس سالہ ’’درید بن صمّہ‘‘ نامی شخص بھی تھا، اس نے سردار کو خواتین، اہل وعیال اور مال ودولت ساتھ لے جانے سے سختی سے روکا؛ لیکن سردار اور اس کے ہم نوا جذبات سے مغلوب تھے، انہوں نے خود درید کو احمق قرار دیا۔(سیرت ابن ہشام :۴/۱۸۰، البدایۃ و النہایۃ:۴/۳۱۶) اس طرح گویا من جانب اللہ مسلمانوں کے لئے سب سے بڑے مالِ غنیمت کا انتظام ہورہا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس جنگی پیش قدمی کی اطلاعات موصول ہوئیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سفر کا ارادہ فرمالیا۔حضرت عتابؓ کی امارت نومسلم نوجوان صحابی حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مکہ کا گورنر بنایا، یہاں یہ پہلو