بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
لَوْمَۃَ لاَئِمٍ، وَعَلَی أَنْ تَنْصُرُوْنِي، فَتَمْنَعُونِي إِذَا قَدِمْتُ عَلَیْکُمْ مِمَّا تَمْنَعُوْنَ مِنْہُ أَنْفُسَکُمْ وَأَزْوَاجَکُمْ وَأَبْنَائَ کُمْ، وَلَکُمُ الْجَنَّۃُ۔ تم میرا حکم سو فیصد مانوگے، آنا کانی نہیں کروگے، ہرحال میں حکم کی تعمیل کرنی ہوگی،تنگی وخوش حالی ہر حال میں مال صرف کرنا ہوگا، دین کے لئے خرچ کرنا ہوگا، تحریک کا مالی تعاون کرنا ہوگا،تم ہمیشہ بھلائی کا حکم دیتے رہو گے اور برائی سے روکتے رہو گے، اللہ کے دین کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈروگے،ہر حال میں میری مدد کروگے، اپنی اولاد، ذات اور بیویوں سے بڑھ کر میری حفاظت کروگے، اللہ کی جنت تمہارا مقدر بنے گی۔(سیرت ابن ہشام:۱/ ۴۵۴الخ) تمام لوگوں نے بیک زبان یہ عہد کیا، ان حضرات کو اسی لئے انصار کا لقب ملا، یہ بیعت عقبۂ ثانیہ کہلاتی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں سے ۱۲؍آدمیوں کو منتخب کرکے نقیب بنایا، ہر قبیلہ کا ایک ذمہ دار بنایا، یہ میٹنگ ہجرت کے اقدام کے لئے فیصلہ کن ثابت ہوئی، یہ حضرات اجتماعیت کے امین تھے، اس کے ذریعہ امت کو وحدت واجتماعیت کا پیغام دیا گیا، یہ فکر دی گئی کہ یہ نبی وحدت اوراخوت کا پیغام لایا ہے۔ (مسند احمد:۳/۳۲۲)ہجرت مدینہ کی اجازت اور آغاز اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل ایمان کو ہجرت کی اجازت دے دی، نبوت کا تیرھواں سال ختم اور چودھواں شروع ہورہا ہے، ہجرت مدینہ کا آغاز ہوچکا ہے۔ سب سے پہلے مہاجر حضرت ابوسلمہ تھے، ان کے ہمراہ بیوی بھی ہے، بچہ بھی ہے، دشمنوں نے بیوی کو روک لیا، بچہ چھین لیا، پھر ایک مدت کے بعد یہ بچھڑے رفیق مل سکے۔ (سیرت ابن کثیر:۲۰۱) آج فلاں گیا، کل فلاں گیا، تقریباً تمام مسلمان ایک ایک کرکے مدینہ پہنچ گئے۔