بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہیں ، ہار ٹوٹ کر گرجاتا ہے، اسے تلاش کرنے میں دیر ہوجاتی ہے، واپس آتی ہیں تو قافلہ جاچکا ہوتا ہے، چوں کہ آپؓ ہلکے بدن کی ہیں اور ہودج پر پردہ پڑا ہوا ہے، اس لئے کسی کو خیال بھی نہیں ہوتا کہ آپؓ ہودج میں نہیں ہیں ، پریشان ہوکر چادر لپیٹ کر اسی مقام پر لیٹ جاتی ہیں کہ تلاش کرنے والے کو آنے پر دقت نہ ہو۔ حضرت صفوان رضی اللہ عنہ جو قافلے سے پیچھے چلنے اور بھولے بھٹکے لوگوں کی خبرگیری پر مامور ہیں ، آتے ہیں ، قریب پہنچ کر ام المؤمنین کو پاتے ہیں ، حیرت واستعجاب سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَپڑھتے ہیں ، اپنا اونٹ بٹھاتے ہیں ، ام المؤمنین سوار ہوجاتی ہیں ، حضرت صفوان پیدل اونٹ کی نکیل تھامے چلتے ہیں ، بالآخر قافلے سے آملتے ہیں ، بس کینہ پرور منافقوں کو موقع مل جاتا ہے اور وہ اسے افسانہ بنا ڈالتے ہیں ، اور مدینے کی پرسکون فضا میں ناموسِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف افتراء والزام کا طوفان کھڑا کردیتے ہیں ، چند مسلمان بھی ان کے جھانسے میں آکر وہی باتیں دہراتے ہیں ، پورا مسلم معاشرہ ناقابل بیان اذیت میں مبتلا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد نبوی میں خطبہ دیا، اور یہ واقعہ اور اپنی شدید تکلیف کا ذکر کیا، حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ! اگر اس طرح کا الزام لگانے والے قبیلہ اوس کے ہیں تو ہم ان سے نمٹ لیتے ہیں ، خزرج کے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم حکم دیجئے کہ ان کی گردن اڑادیں ، اس پر خزرج کے سردار سعد بن عبادہ جوش میں آگئے، قریب تھا کہ باہم تفرقہ ہوجاتا؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مداخلت فرمائی، مجلس برخاست کردی، مختلف ذرائع سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تصدیق کرائی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں سنا۔ ایک مہینہ گذر گیا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ مجھے کچھ پتہ نہ تھا،