بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
چناں چہ زبیدی کو اس کا حق مل کر رہا، اس معاہدے کو حلف الفضول (خوبیوں کا معاہدہ) کہا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ: ’’آج بھی اگر کوئی یہ معاہدہ کرنا چاہے تو میں سب سے آگے آکر اس کو قبول کروں گا۔‘‘(مختصر السیرۃ/۳۰، ابن ہشام:۱/۱۳۴الخ،سیرت ابن کثیر:۱/۲۵۸) آپ غور کیجئے! یہ معاہدہ مکہ کے سماج کے چند ایسے نوجوانوں کا تھا، جو بہت زیادہ با اثر نہیں تھے، جو شخص ظلم کررہا تھا، دوسروں کا حق چھین رہا تھا وہ اپنے دور کا اور مکہ کا بہت بااثر اور مضبوط شخص تھا؛ لیکن حق اور انصاف وہ چیز ہے جو کسی طاقت والے کی طاقت، کسی اقتدار والے کے اقتدار، کسی قوت والے کی قوت کے سامنے نہیں جھکتی، ظالم کو ظلم سے روکنے کے لئے، مظلوم کو انصاف دلوانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ معاہدہ کیا، ابھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت نہیں ملی ہے، ابھی بیس سال باقی ہیں ، لیکن بنیاد قائم ہوگئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ظالم کے ظلم کو ختم کرے گی، مظلوموں کو حق دلائے گی، پوری دنیا میں انصاف کی لہر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ دوڑے گی۔ظلم کو گوارا نہ کرنے کا فکر انگیزپیغام یہ واقعہ سیرت کا ہم کو پیغام دے رہا ہے کہ ہمارا یہ مزاج بننا چاہئے کہ ہم ظلم کو، ناانصافی کو، حق تلفی کو، ستم رانی کو گوارا نہ کرسکیں ، ہم مذہب کی، مسلک کی، نظریے کی، ملت کی، عقیدے کی تفریق کے بغیر محض انسانی بنیادوں پر ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت کا علم بلند کرنے والے بن جائیں ، ہم ایک ایسا سماج تشکیل دیں جس میں تمام لوگ ظالم کے خلاف متحد ہوجائیں اور مظلوم کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں ، جس میں کوئی بندوق کے بل پر، ہتھیار کے زور پر، غنڈہ گردی کے بل پر، سیاسی اثر ورسوخ کے بل پر، سماج میں حق و انصاف کو مٹا نہ سکے، اور ظلم کو فروغ نہ دے سکے،