بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہوگئے، ابوجندل اور کچھ اور مسلمان ان سے آملے، اور چھاپہ مار جنگوں کے ذریعہ وہاں سے گذرنے والے ہر مشرک قافلے کا ناطقہ بند کردیا، یہ ایک طرح کی گوریلا جنگ ہوتی تھی، ابوبصیر اس کے بانی ہیں ، بالآخر مکہ کی مشرکانہ قیادت پریشان ہوئی اور معاہدے سے یہ دفعہ خارج کردی، جس میں مکہ کے کسی مسلمان کے مدینہ جانے کی صورت میں واپس کئے جانے کی بات تھی، اس طرح وہ دفعہ جو سب سے زیادہ ذلت آمیز سمجھی جاتی تھی خود دشمنوں کے ذریعہ ختم کردی گئی، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان صحابہ کو مدینہ بلوایا اور ان کی آرزو پوری ہوئی۔ (بخاری: الشروط،فتح الباری:۵/ الشروط، شرح الزرقانی:۲/۲۰۳ الخ)حضرت ام حبیبہ ؓسے عقد ذی الحجہ ۶؍ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان سے عقد فرمایا، یہ سردار قریش ابوسفیان کی بیٹی تھیں ، حبشہ ہجرت کے بعد غریب صلی اللہ علیہ و سلم لوطنی کے عالم میں ان کے سابق شوہر کا انتقال ہوگیا تھا، شاہِ حبشہ نجاشی کی وساطت سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے عقد فرمایا، نجاشی نے کمال احترام سے انہیں مدینہ روانہ کیا۔ (الاکمال فی اسماء الرجال: للخطیب التبریزی: ترجمۃ ام حبیبۃ، پیغمبر اعظم وآخر: ڈاکٹرنصیراحمد ناصر:۵۸۵)سلاطین عالم کو دعوتی خطوط چوں کہ اللہ رب العالمین نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ’’رَحْمَۃٌ لِلْعَالَمِیْنَ‘‘(سارے جہان کے لئے رحمت) قرآنِ مجید کو ’’ذِکْرٌ لِلْعَالَمِیْنَ‘‘ (پوری دنیا کے لئے نصیحت نامہ) بنایا ہے۔ (سورۃ الانبیاء:۱۰۷، سورۃ التکویر:۲۷) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت بعثت عامہ ہے، اس لئے اب وہ وقت آچکا تھاکہ اسلامی تحریک اپنے اس سفر میں بین الاقوامی مرحلے میں داخل ہوجائے، ۶؍ہجری کے اخیر میں حدیبیہ سے واپس آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ: