بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
وقت ایک انصاری صحابی اور ایک مہاجر صحابی کے درمیان جھگڑا ہوگیا، مہاجر نے ’’یَا لَلْمُہَاجِرِیْنَ‘‘ کہہ کر مہاجروں کو اور انصاری نے ’’یَا لَلأَنْصَارِ‘‘ کہہ کر انصار کو آمنے سامنے کھڑا کردیا، بات بڑھنے لگی، قریب تھا کہ ہاتھا پائی ہوجائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ: مَا بَالُ دَعْوَیٰ الْجَاہِلِیَّۃِ؟دَعُوْہَا فَإِنَّہَا مُنْتِنَۃٌ۔ یہ جاہلانہ تعصب کے نعرے کیسے؟ یہ باتیں ہمیشہ کے لئے چھوڑدو، یہ بہت بدبودار اور گندی باتیں ہیں ۔ (بخاری: التفسیر:باب قولہ’’سواء علیہم‘‘ الخ) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبائلی، علاقائی، قومی، خاندانی، نسلی، نسبی اور لونی سب تعصبات پر قدغن لگادی، یہ پیغام نبوت آج بھی زندہ ہے، تاقیامت زندہ رہے گا، اور تعصبات کے منحوس سائے میں جینے والوں کو سبق دیتا رہے گا۔منافقین کا کردار اور قرآن کی صراحت یہ واقعہ منافقوں کو معلوم ہوا تو رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے اپنے لوگوں کو شہ دی اور کہا: ان مہاجرین کی یہ ہمت، ہماری وجہ سے مضبوط ہوئے، اور ہم کو آنکھیں دکھارہے ہیں ، یہ تو ایسا ہوا کہ اپنے کتے کو کھلاپلاکر موٹا کرو؛ تاکہ وہ تم کو ہی کھاجائے، خدا کی قسم! جب ہم مدینہ واپس پہنچیں گے تو ہم میں سے عزت والا ذلت والے (حضورااورصحابہ) کو نکال باہر کرے گا۔ (طبقات ابن سعد:۲/۴۶، نبیٔ رحمت:۳۵۱) یہ باتیں کم سن صحابی حضرت زید بن ارقم نے سن لیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتایا، حضرت عمر نے عرض کیا کہ اس منافق کو قتل کرادیجئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹال دیا۔ (بخاری:المناقب: باب ما ینہی عنہ من دعوۃ الجاہلیۃ)