بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
تدبیر و توکل کا اجتماع غور فرمائیے! ایک طرف یہ جنگی مستحکم، منظم، مکمل اور حکیمانہ ترقی یافتہ تدبیر وانتظام، مکمل تیاری، تمام ضروری تدابیر واسباب ووسائل کا اہتمام، اور دوسری طرف آخری درجہ کے الحاح وتضرع کے ساتھ رجوع وانابت الی اللہ اور اللہ سے مدد طلبی اور اس پر توکل، پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام تدبیریں اور اسبابی انتظامات فرمائے، اونٹ، گھوڑے، تلوار، سب اسباب لئے، اسباب کم ضرور تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب اسباب اپنائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کی طرف رجوع بھی فرمایا۔ غزوۂ بدر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں کو جمع کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ ظاہری اسباب اور تیاری چھوڑکر محض تقدیر پر تکیہ کرلینا بے عملی اور کم عقلی ہے، اور صرف اسباب وتدابیر کو اپناکر اللہ کے دربار میں رجوع سے غافل رہنا محرومی اور نخوت ہے؛ بلکہ سنت رسول بتارہی ہے کہ اللہ پر توکل کی روح یہی ہے کہ تمام ممکن اسباب وتدابیر اپناکر نتیجہ اللہ پر چھوڑدیا جائے، اور اللہ کی طرف رجوع ہوا جائے، اور اسی سے مدد طلب کی جائے، اور دعا مانگی جائے، اس لئے کہ بابِ نصرت اسی دعا کے ہتھیار سے کھلتا ہے۔ایفائے عہد کی اہمیت اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ دو صحابہ حضرت حذیفہ اور حضرت ہذیل رضی اللہ عنہما آپہنچے، انہیں راستے میں کافروں نے روک لیا تھا، پھر اس شرط پر رہا کیا تھا کہ یہ مسلمانوں کی مدد نہیں کریں گے، جنگ شروع ہونے سے چند لمحے پہلے یہ پہنچے ہیں ، شریک جہاد ہونے کو بے تاب ہیں ، اس وقت ایک ایک فرد قیمتی ہے؛ لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں شرط پر قائم رہنے اور وعدہ وفا کرنے کی تاکید کی، اور شریک جہاد نہیں ہونے دیا۔ (مسلم: الجہاد: باب الوفاء بالعہد،پیام سیرت: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی:۱۲۷-۱۲۸)