بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
بال منڈوائے، اور سب نے مل کر آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے بال بطور تبرک تقسیم ومحفوظ کرلئے۔ (المغازی للواقدی:۲/۹۹، سبل الہدیٰ والرشاد:۵/۵۶)صلح حدیبیہ: فتح مبین صلح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ۳؍دن قیام فرمایا، پھر واپسی کا سفر شروع ہوا، راستے میں سورۂ فتح کی ابتدائی آیات اتریں ، جن میں اس واقعہ کو فتح مبین قرار دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کے سامنے یہ آیات سنائیں ، اور فرمایا کہ یہ وہ آیات ہیں جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں جن پر سورج طلوع ہوتا ہے، تو صحابہ نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیا یہ صلح ہی فتح ہے؟ یہ کیسی فتح ہے کہ ہم بیت اللہ جانے سے روک دئے گئے، اور اپنے مظلوم بھائیوں تک کو رہانہ کراسکے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ حقیقت میں بہت بڑی فتح ہے، تم کافروں کے گھر تک پہنچ گئے، انہوں نے آئندہ سال عمرہ کی درخواست پر تمہیں واپس جانے پر راضی کیا، خود جنگ بندی کی خواہش ظاہر کی، ان کے دل میں تمہارا بغض بھرا ہوا ہے، مگر اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا فرمایا، چناں چہ بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ واقعی یہ فتح ہی تھی۔ (پورے واقعہ کی جملہ تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو: فتح الباری:۵/۲۴۵-۲۵۶،کتاب الشروط)صلح حدیبیہ کے مبارک ثمرات و پیغامات غور فرمائیے: (۱) اس صلح نے دس سال تک کے لئے مشرکین کو پابند کردیا کہ نہ وہ خود مسلمانوں پر حملہ آور ہوسکتے تھے، نہ کسی حملہ آور کی مدد کرسکتے تھے۔ (۲) اس صلح کے نتیجے میں مکہ کے اطراف میں آباد قبیلہ بنی خزاعہ نے مسلمانوں کی حلیفی کا اعلان کیا، جو آگے چل کر فتح مکہ کا باعث بنا، اس طرح دیگر قبائل سے تعلقات قائم کرنے کا حق تحریری طور پر تسلیم کیا گیا۔