بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے مشورہ طلب کیا، سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن عبادہ سمیت متعدد لوگوں (جن میں اکثر جوان اور جوش جہاد سے معمور تھے) کی رائے تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کی جائے، دوسری رائے یہ تھی کہ مدینہ منورہ میں رہ کر ہی مقابلہ ہو، رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی بھی یہی رائے تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قلبی میلان بھی اسی رائے کی طرف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں رائیں سنیں ، پھر باہر نکل کر حملہ کرنے کا ارادہ فرمایا، عصر کے بعد ہتھیار پہنے اور باہر آئے، مدینہ منورہ سے باہر نکل کرکے مقابلہ کرنے کی رائے دینے والے کچھ صحابہ نے اظہار ندامت کیا اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جیسا چاہیں کریں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کسی نبی کے لئے روا نہیں ہے کہ وہ ہتھیار پہن کر پھر اتارے، جب تک اللہ اس کے اور دشمنوں کے درمیان فیصلہ نہ فرمادے۔(سیرت المصطفیٰ :۲/۱۸۷-۱۹۰، البدایۃ والنہایۃ:۴/۱۲ الخ)لشکر اسلام جانب احد قافلہ چل پڑا، تعداد ایک ہزار ہے، نابالغ بچے بھی شوقِ جہاد میں آرہے ہیں ، مگر انہیں واپس کردیا گیا، حضرت رافع بن خدیج نابالغ ہیں ، مگر تیر اندازی کی خصوصی صلاحیت کی وجہ سے انہیں شامل کرلیا گیا ہے، ان کے ہم عمر حضرت سمرہ بن جندب نے آزمائشی کشتی میں حضرت رافع کو زیر کردیا، چناں چہ انہیں بھی شامل کرلیا گیا ہے۔(المغازی: للواقدی:۱/۱۹۷الخ) کچھ یہودی بھی آگئے تھے، انہیں واپس کردیا گیا؛ تاکہ لشکر اسلامی ان کی سازش سے مامون رہے۔منافقین کی واپسی یہ قافلہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ور جبل احد کے درمیان مقام ’’شوط‘‘ پر پہنچا، کہ رئیس المنافقین عبد