بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
لاش دشمنوں سے بچالائے اور جنت کا حق دار ہوجائے؟ حضرت زبیر ومقداد تیار ہوئے، مکہ پہنچے، رات کے وقت لاش لی اور روانہ ہوگئے، کافروں کو پتہ لگا تو وہ تعاقب میں نکلے، حضرت زبیر ومقداد نے لاش زمین پر رکھ کر تعاقب کرنے والوں سے نمٹنا چاہا، اتنے میں بحکم الٰہی لاش کو زمین نے نگل لیا، اس طرح خبیب ’’بلیع الارض‘‘ کہلائے۔ اسی طرح حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو بھی میدانِ قتل میں لایا گیا، ان سے ابوسفیان نے کہا کہ کیا تم پسند کروگے کہ تم رہا کردئے جاؤ اور اس کے عوض محمدا قتل کردئے جائیں ؟ زید نے فرطِ محبت میں کہا تھا کہ خدا کی قسم! مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ مجھے رہا کردیا جائے اور آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک پیروں میں کانٹا بھی چبھ جائے، یہ جواب سن کر ابوسفیان نے کہا تھا کہ خدا کی قسم! ہم نے کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی محبت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے کرتے ہیں ۔ اس قافلے کے امیر حضرت عاصم کو ٹیلے ہی پر قتل کیا جاچکا تھا، انہوں نے اپنے جسم کی حفاظت کی دعا مانگی تھی، دشمنوں نے ان کا سر کاٹنا چاہا تھا مگر اللہ نے شہد کی مکھیوں کے غول کو ان کے لاشے کی حفاظت پر مامور فرمادیا تھا، چناں چہ مشرکین ان کے جسم کو نہیں پاسکے۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۱۶۹ الخ، زاد المعاد:۲/۱۰۹، بخاری: المغازی: باب غزوۃ الرجیع، سیرت احمد مجتبی :۲/۳۴۵)واقعہ بئر معونہ اس کے بعد اسی ماہِ صفر ۴؍ہجری میں اس سے بھی زیادہ الم ناک واقعہ ظہور پذیر ہوا، نجد کے قبیلہ کلاب کا سردار ابو البراء عامر بن مالک مدینہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دعوتِ اسلام دی، اس نے اسلام قبول تو نہیں کیا، مگر اپنا تعلق ظاہر کیا، پھر بولا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے کچھ صحابہ دعوتِ دین اور تبلیغ اسلام کے لئے اہل نجد کے پاس بھیج دیں تو امید ہے کہ وہ سب