بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
کردئے، تلوار اس کے ہاتھ سے نیچے گرگئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تلوار اٹھالی اور فرمایا کہ اب تم کو مجھ سے کون بچائے گا؟ اس پر وہ شخص معافی تلافی کرنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو کوئی سزا نہیں دی، بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر اس نے اسلام قبول کرلیا، قرآن میں اس واقعہ کا یوں ذکر آیا ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ إِذْ ہَمَّ قَوْمٌ أَنْ یَبْسُطُوا إِلَیْکُمْ أَیْدِیَہُمْ فَکَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ (المائدۃ: ۱۱) اے ایمان والو! اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا وہ یاد کرو، جب کچھ لوگوں نے تم پر دست درازی کرنے کا ارادہ کیا تھا تو اللہ نے تمہیں نقصان پہنچانے سے ان کے ہاتھ روک دئے اور اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ اللہ کا رعب دل میں رکھتے ہوئے عمل کرو اور مؤمنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔(ملاحظہ ہو:سیرۃ المصطفیٰ:۲/۱۷۴ بحوالہ الخصائص الکبری :۱/۲۱۰ الخ) اس واقعہ سے ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خود اعتمادی اور جرأت مندی کا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف جانی دشمنوں تک کو معاف کردینے کا حوصلہ اور وسیع ظرف بھی ظاہر ہوتا ہے۔کعب بن الاشرف کا قتل مدینہ منورہ کے یہودیوں کا سردار ’’کعب بن اشرف‘‘ شاعر، دولت مند، اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کا سخت دشمن اور کینہ پرور انسان تھا، بدر میں کفار کی شکست کا اسے بے حد صدمہ تھا، اس موقع پر اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا کہ آج کے دن تمہارے لئے زمین کا پیٹ اس کی پیٹھ سے بہتر ہے، اس نے مقتولین بدر کے مرثیے بھی لکھے، جن میں کفار