بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِيْ وَلَکُمْ۔ میں اللہ سے اپنے لئے اور تم سب کے لئے مغفرت کا طلب گار ہوں ۔ (البیہقي فی الدلائل:۵/۲۶۲، زاد المعاد:۳/۴۷، خطبۂ تبوک: محمد میاں صدیقی)حضرت ذو البجادینؓ کی داستان عزیمت قبیلہ مزینہ کا نوجوان ’’عبد العزیٰ‘‘ فتح مکہ کے بعد قبولِ اسلام کا شرف حاصل کرتا ہے، اپنے چچا سے کہہ رہا ہے کہ میں مدینہ جارہا ہوں ، چچا نے کہا کہ سب چیزوں سے دست بردار ہونا پڑے گا، وہ جوان عرض کرتا ہے کہ سب کچھ حاضر ہے، چچا نے کپڑے بھی اتروالئے ہیں ، ماں نے کمبل دیا ہے، اس نے کمبل کے دو ٹکڑے کئے ہیں ، ایک ٹکڑا تہہ بند کے طور پر باندھا اور دوسرا اوڑھ لیا ہے۔ ایک بے خودی کے عالم میں وہ جوان مدینہ منورہ پہنچتا ہے، فجر کی نماز کے بعد آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور حاضر ہوتا ہے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے داستان سنی ہے، یہ وہ خوش نصیب ہے جس نے حق کے لئے وطن چھوڑ دیا ہے، گھر بار چھوڑدیا ہے، اہل وعیال چھوڑدیئے ہیں ، حد یہ ہے کہ اپنا لباس بھی چھوڑ دیا ہے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارا نام عبد اللہ ہے، اور لقب ’’ذُوْ الْبِجَادَیْنِ‘‘ (دو کپڑوں والا) ہے۔ مجاہدین تبوک کے قافلے میں یہ عبد اللہ بھی شامل ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کرتے ہیں : دعا فرمادیجئے کہ مجھے شہادت کا اعزاز نصیب ہوجائے۔ آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی: اے اللہ! میں اس کا خون دشمنوں پر حرام کرتا ہوں ۔ عبد اللہ بولے : یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ! میں تو شہادت کی تمنا لے کر آیا ہوں ۔