بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
حیات نبوی کا آخر ی دن دوشنبہ کا دن ہے، ربیع الاول ۱۱؍ہجری کی بارہویں تاریخ ہے، تاریخ انسانیت کا انتہائی الم ناک اور روح فرسا دن ہے،فضا سوگوار ہے، محبوب رب العالمین اکا بلاوا آچکا ہے۔نماز فجر فجر کی نماز مسجد نبوی میں ہورہی ہے، حضرت ابوبکر مصلیٰ پر ہیں ، اچانک آقا صلی اللہ علیہ و سلم اپنے کمرے کا پردہ ہٹاتے ہیں ، صحابہ کا آخری دیدار کررہے ہیں ، ابوبکر کی نگاہ پڑی تو پیچھے ہٹنے لگے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارے سے روک دیا، صحابہ شوق وجذب کے عالم میں آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے رخِ انور کو دیکھ رہے ہیں ، حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس وقت آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ قرآن کے ورق کی طرح دمک رہا ہے، اس میں چمک بھی تھی، عجیب کشش بھی تھی، نورانی تقدس بھی تھا، بیماری کے اثر سے زردی بھی تھی، صحابہ کے جذبات متلاطم ہیں ، قریب ہے کہ صفیں درہم برہم ہوجائیں ، آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے پردہ گرادیا ہے، صحابہ نے جمالِ نبوت کی یہ آخری بار زیارت کی ہے۔ (بخاری: المغازی: باب مرض النبی) اپنے مانجھے ہوئے، اپنے تیار کئے ہوئے صحابہ کو عبادت اور مالک حقیقی سے مربوط ہونے کی اس حالت میں دیکھ کر آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئی ہیں ، دل کو سرور ہوا ہے، محنت وصول ہوتی نظر آئی ہے، ۲۳؍سالہ محنت کا خوش گوار نتیجہ نظر کے سامنے ہے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم اس حال میں اللہ کے دربار میں پہنچ رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل اپنے صحابہ سے خوش اور مطمئن ہے۔