بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی اور: در عجم گردیدم و ہم در عرب مصطفی نایاب و ارزاں بولہبسورۃ اللہب کانزول اللہ نے ابولہب کے اس جملے کا نوٹس لیا، اور اس کی شقاوت پر مہر لگادی، فرمایا: تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَہَبٍ وَ تَبَّ ،مَا أَغْنَیٰ عَنْہُ مَالُہُ َو ماَکَسَبَ، سَیَصْلَی نَاراً ذَاتَ لَہَبٍ،وَامْرَأَتُہُ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ، فِی جِیْدِہَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ۔(اللہب) ہاتھ ابولہب کے برباد ہوں ،اور وہ خود برباد ہوچکا ہے، اس کی دولت اور اس نے جو کمائی کی تھی، وہ اس کے کچھ کام نہیں آئی،وہ بھڑکتے شعلوں والی آگ میں داخل ہوگا،اور اس کی بیوی بھی، لکڑیاں ڈھوتی ہوئی ، اپنے گردن میں مونجھ کی رسی لئے ہوئے۔ یہ لگائی بجھائی کرنے والی جہنمی عورت ام جمیل تھی، یہ آیات سن کر غصہ کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تلاش کرتی ہوئی نکلی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے، ام جمیل سامنے سے آرہی تھی، حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ! آپ کے خلاف اس کے تیور بگڑے ہوئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ایک فرشتہ مجھے چھپائے ہوئے ہے، وہ سامنے سے بھی مجھے دیکھ نہ پائے گی، بالآخر ایسا ہی ہوا، ام جمیل نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ تمہارا دوست کہاں ہے، وہ’’ مذمم‘‘(انتہائی قابل مذمت ) ہے، ہم اس کے منکر ہیں ، ہم اس سے نفرت کرتے ہیں :