بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
بالآخر اسی نے جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل کردی ہے، مسلمانوں کا غلبہ دیکھ کر ’’جبل الرماۃ‘‘ پر تعینات تیر انداز اترکر مالِ غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے، ان کے کمانڈر حضرت عبد اللہ بن جبیرؓ نے ان کو بہت روکا، مگر وہ نہ مانے، حضرت عبد اللہ نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت یاد دلائی، مگر وہ بولے کہ اب تو فتح ہوچکی ہے، حضرت عبد اللہ کے ساتھ صرف دس افراد بچے۔ ابوسفیان کے اشارے پر خالد بن ولید (جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے) نے اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاکر اپنے دستے کے ساتھ چکر کاٹ کر پیچھے سے زور دار حملہ کیا، انہوں نے پہاڑ پر موجود صحابہ کو شہید کرڈالا، یہ منظر دیکھ کر بھاگتے ہوئے مشرکین بھی پلٹ آئے، اس طرح اسلامی لشکر مشرکین کے نرغے میں آگیا، پانسہ پلٹ گیا، بہت سے مسلمان بدحواس ہوگئے۔(دیکھئے: سیرت المصطفیٰ :۲/۲۰۵)آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ثابت قدمی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر چوطرفہ حملہ اور صحابہ کی جاں نثاری اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر صحابہ کی جان بچانے کا فیصلہ کیا، اور بآواز بلند صحابہ کو پکارا، دشمنوں نے تاڑ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہاں ہیں ؟ چناں چہ انہوں نے جناب رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ختم کرنے کا اردہ کرلیا، اور ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر حملہ آور ہونے لگے، شمع رسالت کے پروانوں نے اس نازک موقع پر اپنی جاں نثاری کا فقید المثال منظر پیش کیا، حضرت مصعب، حضرت طلحہ، حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہم سینہ سپر ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ہَلْ مِنْ رَجُلٍ یَشْرِیْ لَنَا نَفْسَہُ؟ کون ہے جو میرے لئے اپنی جان فروخت کرتا ہے؟ انصار صحابہ آگے آگئے ، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت میں ایک ایک کرکے جان کا