بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
۵؍ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سفر پر نکلے، بنی المصطلق کے ٹھکانوں پر پہنچے، اور ان پر یلغار کردی، دشمن بھاگ کھڑے ہوئے، ان کے دس افراد قتل ہوئے، اور ان کے چھ سو مرد وعورت گرفتار ہوئے، انہیں قیدیوں میں سردار حارث کی بیٹی جویریہ بھی تھیں ، جویریہ باندی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں آزاد کرکے اپنی زوجیت میں لے لیا، انہوں نے چند دن پہلے خواب دیکھا تھا کہ مدینہ کی جانب سے ایک چاند آیا ہے اور ان کی گود میں اتر گیا ہے، اب اس کی تعبیر ظاہر ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے عقد فرمایا، دیگر تمام صحابہ نے تمام اسیروں کو رہا کردیا ،کیوں کہ اب یہ سب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سسرالی عزیز ہوگئے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے : فَمَارَأَیْنَا امْرَأَۃً کَاْنَتْ اَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلَیْ قَوْمِہَا مِنْہَاْ اُعْتِقَ فِیْ سَبَبِہَا مِأَۃُ أَہْلِ بَیْتٍ مِنْ بَنِیْ المُصْطَلِقِ۔ جویریہ سے زیادہ کوئی عورت اپنی قوم کے حق میں بابرکت ثابت نہیں ہوئی، ایک دن میں ۱۰۰؍گھرانے آزاد ہوئے۔ (ابوداؤد:کتاب العتق، باب فی بیع المکاتب، المستدرک :۴/۲۷، اسد الغابۃ :۵/۲۳۴)اخلاق کریمانہ کی فتح غزوۂ بنی المصطلق تاریخ اسلام میں ۳؍پہلوؤں سے اہمیت کا حامل ہے، اس کا ایک پہلو تو وہ ہے جو ذکر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سردار زادی سے عقد فرمایا، پھر تمام قیدی آزاد کردئے گئے، اور اس حسن سلوک اور اخلاقِ کریمانہ کی وجہ سے تقریباً سب حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔تعصب پر قدعن دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس موقع پر منافقین نے مسلمانوں میں باہم تفریق اور خوں ریزی کی خطرناک سازش رچی، غزوہ کے بعد مسلمان ابھی مریسیع کے چشمے پر ہی تھے کہ پانی لیتے