بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے، پریشان حال لوگ ابوطالب کے پاس آتے ہیں ، کہتے ہیں کہ بارش کی دعا کیجئے، ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر نکلتے ہیں ، ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت دیوارِ کعبہ سے ٹیک دیتے ہیں ، اور اس بچہ کو سامنے رکھ کر اللہ سے دعا کرتے ہیں ، آسمان پر بادل کا نام ونشان نہیں تھا؛ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل برستا ہے، پورا مکہ جل تھل ہوجاتا ہے، شہر وبیاباں سب شاداب ہوجاتے ہیں ، بعد میں ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں جو اشعار کہے ہیں ان میں اس واقعہ کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: وَأَبْیَضُ یُسْتَسْقَیٰ الْغَمَامُ بِوَجْہِہِ ثِمَالُ الْیَتَامَیٰ عِصْمَۃٌ للأَرَامِلِ وہ خوب صورت ہیں ، ان کے چہرے کی برکت سے بارش طلب کی جاتی ہے، وہ یتیموں کے ملجا ہیں ، بیواؤں کی حفاظت کا ذریعہ ہیں ۔( ملاحظہ ہو: مختصر السیرۃ: شیخ عبد اللہ /۱۵، مدارج النبوۃ:شیخ عبد الحق دہلوی/۳۳) حالی نے کہا ہے: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا مأویٰ یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰبے مثال حیا بچپن میں کعبہ کی تعمیر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پتھر اٹھارہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مونڈھے چھلے جارہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا عباس نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لنگی کھول کر مونڈھے پر رکھ دیں ؛ تاکہ مونڈھے نہ چھلیں ؛ لیکن: